:سُوال نمبر53
اگر مَیں ثابت کر سکنے میں کامیاب ہو جاؤں کہ اب اللہ تعالیٰ جو میرا، آپ کا، سب کا خالق ہے، اُس کے ہاں سے آپ کی کتابِ مُقدّس ۔۔۔۔۔۔ بائبل شریف کو توثیق حاصل نہیں رہی (اِس لیے اس کی تلاوت ترک کر دینا چاہیے) ، تو آپ سے میرا سُوال یہ ہے کہ نتیجتاً آپ اس ثبوتِ دعویٰ کو تسلیم کرتے ہُوئے ترکِ مسیحیّت کے بعد دائرئہ اسلام میں داخل ہو جائیں گے؟ کیا کہتا ہے آپ کا شُعُور؟
جواب:۔کلامِ مُقدّس خُداکے حُکم سے موجُود ہے اور اِس نے ہمیشہ موجُود رہنا ہے۔ صدیوں سے اَن گِنَت مومنین اِس کی تلاوت کرتے آ رہے ہیں اور آیندہ صدیوں، ہزاریوں میں بھی اِس الہامی کتاب جس کی آیاتِ مُبارکہ خُداوندِ قُدُّوس نے تحریر کرنے والوں کے دِلوں میں ڈالیں اور خُدا کے روحانی فیضان یعنی رُوحُ القدُس سے برکت عطا ہُوئی، اِس بائبل مُقدّس کی تلاوت جاری رہے گی۔ ہماری کتابِ اقدس کے پہلے باب میں اِس بارے میں تفصیل کے ساتھ بیان موجُود ہے۔ مزید برآں یہ کہ ہماری ویب سائٹ پر بھی اِس کی تفصیل موجُود ہے، آپ رجُوع تو فرمائیےhttp://muslimswalmasihijawab.com ۔
کلامِ اقدس۔۔۔۔۔۔ بائبل ایک کتاب نہیں بل کہ کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ ان کُتُب کو مُختلف مُقدّسین نے لِکھّا اور یوں بھی ہے کہ یہ کام صدیوں جاری رہا اور مُختلف حالات اور زمانوں میں باقاعدہ جماعت بنا کر بھی (گروپ میں) مصنّفین نے یہ احتیاط سے تحریر کِیا اور بعض نے ادبی محاسن کو بھی اپنی مُبارک سعی و محنت میں شامل کِیا۔ بعد میں ان سب تحریروں کو ایک ہی پاک کتاب میں اکٹھّا کر دیا گیا۔ جن نوشتوںاور صحائف کو شُرُوع میں جگہ دی گئی ان کتابوں نے دستاویزی حیثیت دی مذہبی داستانوں کو، اور اہلِ یہود جن جن تجربات سے گذرے ان واقعات و اثرات کو۔ بعد ازاں ان تخلیقات کو شامل کِیا گیا جنھوں نے تاریخِ مسیحی کلیسیا کے زمانہء آغاز کا احاطہ کِیا۔ ان تحریروں کی صِحّت و تصدیق کو کوئی چیلنج درپیش نہیں۔ تنقید و تحقیق کے ناخُداؤں نے بائبل مُقدّس کے متن (اس میں شامل تمام کتابوں کے مواد) کو ثقہ قرار دیا اور نسلاً در نسلاً اس کی تصدیق کی جاتی رہی ہے۔ ان دانش وروں کے تحقیقی و تنقیدی کام سے دُکّانوں، گھروں اور اداروں کے بُک شیلف بھرے پڑے ہیں۔ اور اصل سُوال تو یہ ہے کہ میری ذات پر پاک بائبل کی مُقدّس تحریروں (آیات) کا کیا اثر مرتّب ہوتا ہے اور ان الٰہی پیغامات، فرمان، ہدایات کے ردِّ عمل میں میرے اعمال کِس قبیل کے ہیں۔ یہُودیت پر ایمان رکھنے والی قومِ یہُود پہلے پہلے عہد نامہ (عہدِ عتیق) کی تعبیر وتفسیر جس طور کرتی ہے وُہ اُس کا مخصوص انداز ہے۔ ہم مسیحی برادری کے لوگ اپنے محبوب خُداوند یسُّوع مسیح اقدس کی زِندگی اور اُن کی تعلیمات کی روشنی میں بائبل پاک کے اس پہلے حصّے، توریت، یعنی کلامِ مُقدّس (عہدِ عتیق) کی تلاوت سے مشرّف ہوتے ہیں کیوں کہ خُداوند ہی ہمارا سب کچھ ہے، خُداوندِ خُدا، بس وہی ہمارا مسیحا ہے اور ہم جانتے مانتے ہیں کہ وُہ خُدا کا بیٹا ہے۔ ہمارے مسیحی فکر کے مُطابِق تقویمی طور پر پُرانے عہد نامہ کے بعد نیا عہد نامہ (عہدِ جدید) شُرُوع ہو کر بالآخِر مکاشفہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے جو انجیلِ مُقدّس کی آخری کتاب ہے۔ ہمارے راسخ عقیدے کے مُطابِق توریت اور انجیل دونوں مِل کر بائبل مُقدّس کہلاتی ہیں۔ سب کچھ ایک طرح ایک طرف اور یہ انمِٹ سچّائی ایک طرف کہ جلال والے خُدا مہربان کا مُقدّس یسُّوع مسیح میں ظہور ہُوا، دنیا نے پاک یسُّوع مسیح میں خُداوند قُدُّوس کو دیکھا، اِسے یُوں بھی بیان کِیا جا سکتا ہے کہ پاک خُداوند یسُّوع مسیح میں خُدا انسان بنا، اور مسیحی ایمان کی رُو سے اب مزید کِسی اِظہار و انکشاف کی گُنجایش باقی رہی ہی نہیں۔
(سُوال نمبر28، نمبر39اورنمبر43کے جوابات سے استفادہ کیجیے۔ خُداوند پاک نے چاہا تو ضُرُور سُودمند ثابت ہو گا)