:سوال نمبر138
۔کیا یہ پاپائی اختراع تھی کہ برزخ(Limbo)یعنی عالمِ ارواح کے بارے میں اتنا کچھ بتایا جاتا رہا اور پھرجب دِل میں آئی اس سب کچھ کہے سنے کو بہ یک جنبشِ قلم منسوخ بھی کر دیا۔ ابھی کل تک تو آپ سب مسیحی اس کے ہونے کے قائل تھے؟ اب کہ پاپاے اعظم نے اس عقیدہ کو ترک کرنے کا فرمان جاری کر دیا، یہ تو ارشاد فرمائیے، کہ ان کا کیا بنے گا جن لوگوںکو یا روحوں کو آپ برزخ پہنچا چکے تھے؟
جواب:۔اس سوال کا جواب دو حصوں میں حاضر ہے۔ پہلے حصہ میں ہم اسلامی اور مسیحی تعلیمات کے حوالے سے بات کریں گے اور واضح کریں گے کہ ترکی زبان کا لفظ اعراف جو عربی لفظ سے مشتق ہے، سوال میں اسی اسم کے بارے میں آگہی طلب کی گئی ہے، کہ اعراف ہے کیا جگہ۔ دوسرے حصے میں با ت یوں آگے بڑھائیں گے کہ واضح کر سکیں آیا یہ کہنا یا سمجھنا درست بھی ہے یا کِس حد تک درست ہے کہ باور کِیا جا سکے کہ پاپاے اعظم نے عارضی ٹھکانے ''اعراف'' کے بارے میں جواب تک کہا گیا تھا اس سب کچھ کی تنسیخ کر دی۔ وہ ضروری تھی۔
اسلامی عقیدہ:
عربی لفظ اعراف کا مطلب ہے، چوٹی، اوج، رفعت ''الاعراف'' کے نام سے ساتویں سورۃ موسوم ہے۔ یہاں اس کے معانی ہیں،پہاڑ کی چوٹی، بلندی۔ یہاں کنایۃً جو حوالہ مطلوب ہے وہ ان لوگوں کے بارے میں ایک جائزہ ہے جو نہ تو دوزخ کے راہی ہیں، نہ ہی بہشت کے باسی۔
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہو گی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے، وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے اور اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے، السلام علیکم! ابھی یہ اہلِ اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے۔
اور جب ان کی نگاہیں اہلِ دوزخ کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، اے ہمارے رب! ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کر۔
اور اہلِ اعراف بہت سے آدمیوں کو جنھیں کہ ان کے قیافہ سے پہچانیں گے، پکاریں گے، کہیں گے کہ تمھاری جماعت اور تمھارا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تمھارے کچھ کام نہ آیا۔
کیا یہ وہی ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ان پر رحمت نہ کرے گا، ان کو یوں حکم ہو گا کہ جاؤ جنت میں تم پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم مغموم ہو گے۔
الاعراف۔۔۔۔۔۔46:7تا49
مسلم قرآن(Muslim Koran)کی تفسیرو کلاسیکل شرح جو کہ قرآن کو مینتار (Korankommentar) مرتبہ گوئیتیرز لوہ1996عیسوی (G.tersloh 1996)، جلد 7صفحہ74پر مؤلف۔ ا، ث، خوری نے لکھا ہے:
مسلم شارحین و مفسرین نے اس مقام کے بارے میں جسے پہاڑ کی چوٹی کہا گیا ہے اور جو لوگ وہاں رکھے جائیں گے ان کے بارے میں مختلف تعبیریں پیش کی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ بعض کے نزدیک یہ بہشت کی رفعتوں میں کہیں ایک بلند ترین مقام ہے اور وہاں رہنے والے خُدا کے منتخب بندے ہیں جنھیں خاص نعمت سے نوازا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ بعض یہ سوچ رکھتے ہیں کہ یہ جگہ پہاڑ کی چوٹی پر ہے جس سے جنت اور جہنم کے درمیان سرحد قائم ہوتی ہے۔ اور وہاں کے باسیوں کو امتیازی درجہ نصیب ہے۔ ان میں جنھوں نے کثرت سے خُدا کی اطاعت و عبادت کی، ان کے ایسے اعمال پر اُنھیں ایسا خاص اجر عطا کِیا گیا۔ ایسے لوگوں کا مقام اور درجہ فرشتوں، انبیا اور شہیدوں کے قریب قریب ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ لوگ نظارہ کرتے ہیں جب وہ لوگ کہ جن کی مغفرت ہو گئی، اُنھیں بخشش مِل گئی وہ خراماں خراماں جنت میں داخل ہونے کو دوڑے دوڑے آرہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ لرزاں و ترساں لوگ نظر آتے ہیں جنھیں دوزخ کی طرف دھکیلا جا رہا ہوتا ہے اور وہ جانوروں کی طرح اَڑی کررہے ہوتے ہیں۔ ان تماشوں سے اعراف والوں کا دِل بہلا رہتا ہے۔ جب جنتی جنت میں سما جائیں گے اور جہنمی جہنم کو بھر چکیں گے تو تب اعراف والوں کی باری آئے گی، تماشے اور انتظار ختم، یہ لوگ بھی بہشت کے کِسی نہ کِسی دروازے سے بالآخر اندر جا ہی پہنچیں گے۔ پہلے وہ انتظار میں تھے اب وہ اپنے منتظر، اپنے اپنے عملوں مطابق، اعلیٰ سے اعلیٰ درجات کو پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔ دیگر شارحین جن کے بارے میں تفسیر المنار میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شارحین کثرت میں ہیں جن کا یقین اس حقیقت کا غماز ہے کہ نجات یافتہ لوگوں میں یہ کم تر درجہ کے آدمی ہیں یا وہ انسان ہیں جن کی نیکی اور بدی کا میزان برابر ہے۔ چناں چہ انھیں اعراف میں وقت گزارنا پڑے گا اس انتظار میں کہ کب رحمتِ خُداوندی جوش مارے، رحم و عنایت کی گھڑی آ پہنچے اور وہ بھی جنت کی عطر بیز ہواؤں کے بُلّھے لُوٹ رہے ہوں۔ یا پھر وہ ذی بشر ہیں جو ایمان تو لے آئے مگر مومنین میں شامل نہ ہو سکے، گناہوں میں بھی ادھر اُدھر منہ مارتے پھرے۔ ان کے لیے کچھ مدت مقرر ہے، کتنی؟ یہ بس خُدا ہی جانتا ہے، وہ علیم ہے اور خبیر ہے۔ اس خاص مدت کے گذرنے پر ہی ان کی معافی ہوگی۔ اورہماری زمین کے کِسی ہزارویں سال وہ اچانک ایک روز رحمتِ خُداوندی سے دُودھ اور شہد کی نہروں میں ڈُبکیاں لگاتے پائے جائیں گے۔
ان متبادلات میں سے جو آخری تفسیر ہے اس میں واضح کِیا گیا ہے کہ اعراف دفع الوقتی مقام ہے جہاں عارضی و مختصر قیام کروایا جاتا ہے اور اس کا محلِّ وقوع بہشت اور دوزخ کے کہیں درمیان درمیان پایا جاتا ہے۔ اسی لیے الاعراف کو برزخ کہا جاتا ہے، یعنی عالمِ ارواح جو انسانی روحوں کا ٹھکانا ہے، جنت کے سفر کے میان ایک سٹاپ اوور۔
جیسے پشاور سے کراچی جانے والے لاہور یا ملتان میں اسی ٹکٹ پر ایک دن کا قیام کر لیں۔ قرآن کی اصطلاح میںیہی برزخ ہے۔۔۔۔۔۔
یہاں تک کہ جب ان میں سے کِسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے، اے میرے پروردگار! مجھے لوٹا دے، کہ اپنی چھوڑی ہوئی دُنیا میں واپس جا کر نیک اعمال کر لوں۔ ہرگز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے۔ ان کے پسِ پُشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اُٹھنے کے دِن تک۔
القرآن سورۃ99:23، 100
(دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دُنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اُسے یہاں برزخ سے تعبیر کِیا گیا ہے۔ یہ درمیان کی زندگی، جو قبر میں یا درندے یا پرندوں یا حشرات الارض کے پیٹ میں، یا جَلا ڈالنے کی صورت میں مٹّی کے ذرات میں گذرتی ہے، برزخ کی زندگی ہے)۔
برزخ کے لفظی معانی ہیں آڑ، رکاوٹ، باڑ۔ بعض مفسرین کے ہاں اسے دیوار کے طور پر بھی برتا گیا ہے جو جنت اور جہنم کے درمیان کھینچی گئی ہے۔ علمِ الٰہی کی ایک شاخ سے جس میں آخری چیزوں کاموت یعنی عدالت اور بقا سے متعلق مطالعہ کِیا جاتا ہے، پتا چلتا ہے کہ یہ اصطلاح اس تصور کے بہت قریب قریب ہے جسے مسیحی عقیدہ میں لِمبو کہا جاتا ہے جہاں بپتسمہ سے محروم مرحومین کو رکھا جاتا ہے اور یہ ایریا بہشت اور دوزخ کے درمیان واقع ہے۔ مسیحیوں کے نزدیک یہ اُن بچوں کی ارواح کا مسکن ہے جن کو اصطباغ نہ دیا گیا ہو یا اُن نیک لوگوں کا مسکن ہے جو خُداوند یسوع مسیح کے زمانے سے پہلے تھے۔
ابن حزم (وفات 1064عیسوی) نے جو تعلیم دی اس کے مطابق یوں ہے کہ وہ لوگ جو دائرئہ اسلام میں تو شامل ہو گئے مگر گناہوں سے اپنا دامن نہ بچا سکے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہ رہیں گے بل کہ جنت میں داخل کر دیے جائیں گے مگر محدود عرصہ کی اپنی سزا بھگت چکنے کے بعد۔ اب اسی نظریے کو ہی دیکھ لیں دنیاوی معصیتوں پر وقتی طور دوزخ کے عتاب کو جھیل چکنے کے بعد نجات اس مسیحی تصور کے کس قدر قریب ہے جسے مسلم دنیا اعراف، برزخ، عالمِ ارواح کہتی ہے اور مسیحی دنیا میں اسے مقامِ کفارہ کہا جاتا ہے،purgatory، جہاں روحیں پاک ہو کر قابلِ نجات بن جاتی ہیں۔ حوالہ:
{art. Al-Araf in C. Glassé, The Concise Encyclopaedia of Islam (London, 1989)}
مسیحی کیتھولک تعلیمات:
لمبولاطینی زبان میں بٹوارے کی لکیر، حد یا کنارے کو کہتے ہیں۔یہ فوت ہو جانے والوں کی اگلی منزل سے پہلے کا ایک عارضی پڑاو ہوتا ہے، محلِّ وقوع، مقام اور بے اصطباغی کی حالت کا استعارہ بھی ہے۔ یہ ان لوگوں کا ڈنگ ٹپاؤ مسکن بھی ہے جن لوگوں کے جنت تو کیا دوزخ میں جانے کا بھی پورے طور تعین یقین نہیں ہوا ہوتا حتّٰی کہ اس درجہ پر بھی نہیں ہوتے جہاں موت کے بعد ارواح اپنے قابلِ عفو گناہوں سے پاک کی جاتی ہیں اور ان تمام گناہوں کی سزا بھگتتی ہیں جن کا کفارہ ادا نہیں کِیا گیا۔
لمبوس پاترم(Limbus patrum)بالکل ہی ابتدائی مسیحیوں کے باپ، دادا، پردادا، غیر مسیحی بزرگوں کے گناہوں کا دھوبی گھاٹ ہونے کا درجہ بھی اسی مقام کو حاصل ہے۔ کیوں کہ یہ حالت یا مقام ان کا مسکن یا عارضی لمحاتِ سکون بسر کرنے کا مسکن ہے جو لوگ مقدس مسیح خُداوند کی آمد سے پہلے پہلے ہی آنجہانی ہو چکے تھے مگر تھے بڑے نیک اور پاکباز لوگ، جو قدیم قوموں کے نظریہ کے مطابق پاک خُداوند کے زیرزمین، پاتال میں اُترجانے اور پھر عرشِ الٰہی کی طرف چڑھ جانے کے باوجود بھی آسمانی نعمتوں اور سعادتوں سے محروم رہے۔
لمبوس پوئیرورُم(Limbus puerorum)مسیحی الٰہیات کے مطابق وہ جگہ ہے جہاں غیر بپتسمہ یافتہ بچے جاتے ہیں یا وہ پرہیز گار و نیک چلن لوگ جو مسیح سے پہلے رِحلت کر گئے ہوں۔ مسیحی روایات میں ہی لمبوس پوئیرورُم کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور مسیحیت میں سیانوں اور نیانوں (بالغوں اور نابالغوں)کی اس حالت کو برزخ سے ذرا ہٹ کے دیکھا جاتا ہے۔ وسیع پیمانے پر مقدس کلامِ الٰہی کی ترویج و تبلیغ کے باوجود بھی کِسی نہ کِسی وجہ سے ایسے لوگ اصطباغ کی مقدس ساکرامینٹ(رسوم) سے بہرہ مند نہ ہو سکے اور مقدس کلیسیا میں برکتِ شمول سے اُنھیں محروم رہنا پڑا۔
ان اصولوں، عقائد اور تعلیمات کا نچوڑ آپ کے استفادہ کے لیے یوں بیان کِیا جا سکتا ہے:
(الف) لمبوس پوئیرورم کے بارے میں کوئی شہادت، وضاحت بائبل مقدس میں موجود نہیں۔
(ب) یہ درست ہے کہ ابتدائی مسیحی روایات اس معاملہ پر خاموش ہیں کہ جو لوگ پاک بپتسمہ نہیں لے سکے اُن پر کیا بیتے گی۔ پھر بھی لمبوس پوئیرورم کی اپنی ایک حیثیت کا ابلاغ موجود ہے جو اس کی اہمیت پر دال ہے کیوں کہ پیلا گیانزم کے خلاف دفاع میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ تقلیدِ فلاغیوس یعنی پیلاگیان ازم (Pelagianism)وہ نظریہ ہے جس میں انسان کو پیدایشی طور پر گناہ گار نہیں گردانا جاتا بل کہ یہ تسلیم کِیا جاتا ہے کہ وہ آزاد مرضی کی بدولت گنہگارہوا۔ تقلیدِ فلاغیوس کے عقیدہ کی کلیسیا کی طرف سے ہمیشہ مذمت کی گئی ہے کیوں کہ اس کی تعلیم اس نظریے کی قائل کرتی ہے کہ انسان خود ہی وہ پہلا فیصلہ کُن قدم اُٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اُن اقدامات کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں جن کے نتیجہ میں اپنی کوششوں سے مکتی کا وہ حقدار بن سکے بل کہ اسے حاصل کر لے۔۔۔۔۔۔ چاہے اس کے اس اقدام میں رحمتِ خُداوندی شامل ہو یا نہ ہو۔ یہ تو اس کی اپنی مساعی کا پھل ہے جو اس کا حق ہے۔ ایسی تدریس کے بطلان کی خاطر گو کہ سعد و نیک لوگوں کے لیے فطری قوتوں سے بالاتر قوت کا ابدی انعام (بہشت) حاصل کرنے کے لیے بپتسمہ شرطِ اوّل ہے، مگر اس کے برعکس، یہ ماننا کہ یہ اس لیے ہے ہی نہیں کہ اس کی وجہ سے فطری سعادتِ ابدی یعنی دائمی حیات پائی جا سکے۔ آگسٹین نے تو پورے اصرار سے کہا ہے اور اس پر مقدس بائبل کی گواہی سے دعوتِ فکر دی ہے کہ نجات کے لیے، مخلصی کے لیے بپتسمہ لازم ہے جس کا ثمر ہے کہ بندہ کلیسیا کا معتبر حصہ بن جاتا ہے جو واحد آسرا ہے انسان کی مکتی و مغفرت کا۔ کلامِ مقدس پر ایمان اور کلیسیا کا محکم ایقان دائمی حیات کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاتے۔ جن بچوں کو بپتسمہ نہیں مِل سکا، جہنمی ہیں، بھلے انھیں اس بپتسمہ نہ ملنے کی پاداش نرم ترین ہی سہنا پڑے۔ وہ جو الٰہیاتی، دینیاتی اور فلسفیانہ نظامِ تعلیم تھا کہ ازمنہء وسطیٰ میں چھایا ہوا تھا اور جس کی بنیاد کلیسیائی بزرگوں کے فرمودات اور ارسطو اور اس کے شارحین کی کتابوں پر تھی، خاصے رسمی اُس طریقِ تعلیم کے ماہرین، علماے علم الکلام نے مقدور بھر کوشش جاری رکھی کہ کِسی طرح آگسٹین والی سختی، کرختی اور کڑے پن کو ملائمت کا لبادہ اوڑھا سکیں۔ اُنھوں نے اسے مان تو لیا مگر اس بنیادی شرط پر کہ ان کی اس تاویل کو فوقیت دی جائے کہ بپتسمہ کا فیض، اس کی برکت نہ حاصل کرنے والوں کے لیے لمبو والا سٹاپ اوور حیاتِ ابدی پانے کا حتمی ذریعہ ہے۔ اور یہ سٹاپ اوور جہنم سے دُور دُور لگّا نہیں کھاتا۔ خُدا کا دیدار، اس سے ملاقات کی سعادت تو میسر نہیں آتی، حسیاتی کرب میں بھی روح مبتلا نہیں ہوتی۔
(ج) کلیسیا کے تعلیم دینے کے اختیارات و احتساب نے اس لمبوس پوئیرورم کے عقیدے کو کبھی بھی شرفِ قبولیت سے نہیں نوازا، چاہے اس کے حق میں کتنے ہی توجیحات اور توجیحات کی تصریحات کے انبار ہی لگا دیے گئے ہوں اور اس کی نسبت فلاغیوسی داستان طرازی سے نہ بھی جوڑی گئی ہو۔ پوپ پائیس ششم(1794عیسوی) کی اس پر رُولنگ(Ds2626) بھی آ چکی ہے۔
(د)اقومانی مکالمہ میں بھی غیر مسیحیوں کی اس درمیانی کیفیت کی صورتِ حالات کے اہم ہونے کی کوئی خصوصیت درخورِ اعتنا نہیں سمجھی گئی۔
(ھ) لِمبو کے نظریہ پر معاصر کیتھولک دینیات کے مذہبی سکالرز کے درمیان ا س کے رد و قبول پر اختلافات جڑ پکڑنے لگے ہیں۔ بعض عالمانِ علمِ الٰہی اس نظریے کے حق میں ہیں اور اسے ضروری و لازم قرا ردیتے ہیں۔ کیتھولک عقیدہ و دستور کے مطابق مختلف مسیحی تعلیمات کے پلڑے میں ان کے نزدیک یہ سب سے بھاری باٹ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کیتھولک مسیحی تعلیم کی کتابوں کی یہ مضبوط جِلد ہے جو اُنھیں مضبوط و سلامت رکھے گی۔ مگر اکثر علماے دِینِ الٰہی حالیہ دور میں متفقہ طورپر اس عقیدے کی نفی کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ان کی طرف سے پہلا جواز تو یہ بنتا ہے کہ مشیتِ ایزدی کے سامنے یہ عقیدہ خم ٹھونک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور عالمگیر نجات کے الٰہی فیض و کرم کا انکار کرتا ہے۔ یعنی آفاقی و الوہی سچائی کے سامنے قیاسات کی ایک جھوٹی دیوار اُسار لی جاتی ہے۔ جب کہ اناجیلِ مقدس اور ازمنہء وسطیٰ میں کلیسیائی تعلیم کے تحت فرائض انجام دینے والے قاضیوں کے نظامِ احتساب و انصاف کی نظیروں کے مطابق حتمی مکتی کے لیے جنت حضرتِ انسان کے لیے آرام و سکون و راحت کا مسکن ثابت ہو سکتی ہے کہ یہی اس کی نجات کا ثمر ہے اور جہنم کی سیر بھی کروائی جا سکتی ہے، بھلے تھوڑے وقتوں کے لیے ہی تا کہ وہ اپنے کیے پر مصیبت و آلام، دُکھ درد کا مزہ بھی تھوڑا چکھ لے اور تطہیر و صفا کی کیفیت سے گذرتا ہوا گناہوں سے پاک صاف ہو کر اس لائق ہو جائے کہ اصحابِ جنت کے درمیان ہمیشہ کی بُود و باش رکھ کے شفاعتِ خُداوند یسوع مسیح کا روح القدس میں شکرگزار ہو کر رحمتِ خُداوندی سے ہمکنار ہو جائے۔
(بحوالہ جوزف فِنکینٹسیلّیر، آرٹیکل لِمبوس اِن: ڈبلیؤ بائینیرٹ (ایڈیشن) لیکسیکون دیئر کاتھولیشن ڈوگماٹِیک]فرائیبورگ،1987عیسوی[صفحات349اور اس سے آگے)
حصّہ دُوُم: کیا پوپ نے برزخ (عالمِ ارواح) یعنی اعراف کی تنسیخ کر دی، اس عقیدہ جِسے لِمبو سے معنون کِیا جاتا ہے واقعی پاپاے روم نے بہ یک مُوے قلم اسے موقوف کر دیا؟
حصّہ اوّل کے جواب کے دوران ہم بتا چکے ہیں کہ یہ نظریہ نہ تو پوپ کا تخلیق کردہ ہے اور نہ ہی اس کی تنسیخ اُن کا کارنامہ ہے۔ اس سلسلہ میں صداقتوں کے وہ مخصوص اسالیب کہ جو مذہبی روایت کے ذریعے متعین و مرتب ہوتے ہیں انھیں دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر یہ بات صادق آتی ہے کہ انفرادی عقائد کو یوں لینا چاہیے کہ وہ مسیحی ڈاکٹرین کا ہی حصہ ہیں اور اس نکتہء نظر کی ساخت، دباو اور تاکید یقین و ایمان کو تثلیث کی طرح توحید میں بدل دیتی ہے اور خُدا میں توحید کے اقرار کے ساتھ اتحادِ کلیسیا کی راہ نکلتی ہے جو اتحاد بین المذاہب پر منتج ہو گی۔ اس پر اکثر گفت و شنید اور بحث و تمحیص ہوتی رہتی ہے اور مسیحی قواعد و ضوابط میں رہتے ہوئے ایک سے زیادہ حتمی اصولوں اور موجودات پر غور و خوض کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اس سب کچھ کے تجزیہ کی آخری صورت یہ نکلتی ہے کہ مذہب کے تمام رکن اس پر قائم ہیں کہ خُدا ذوالجلال کا مکاشفہ جو مقدس روح الحق کے ذریعے خُداوند پاک یسوع المسیح میں اثر پذیر ہوا اس سے انسانیت کو تحفظ مِلا اور انسانوں کی حتمی نجات ممکن ہوئی۔ چناں چہ مسیحی ایمان کا نیوکلیئس یہی نقطہ ہے کہ خُدا لم یزال ہی واحد فی التثلیث خُدا ہے او ریہ عقیدہ کہ اسی نے ہی بشر کو یسوع مسیح میں تخلیق کِیا اپنی صداقت کا آپ امین ہے اور نتیجتاً انسانی مخلصی کا فلسفہ اور بنی نوعِ انسان کی قوتِ عمل اور جذبے کی تازگی کو اسی سے جِلا ملتی ہے، گویا نسلِ انسانی کُندن ہو کر دوبارہ سے خلق ہو گئی۔ صداقتوں کے سلسلہء مدارج کا اصول یہ سکھاتا ہے کہ وہ متبرک مواد و فرمودات جو بائبل مقدس کے ذریعے ہم پر لاگو اور ان کی تعمیل ہم پر واجب ہے اس کے مابین بمقابلہ ان روایات کے جومعقولیت کا چولا تو پہنے ہوئے ہیں مگر دیکھا جائے تو ان کی پابندی ہمارے اوپر ہرگز لازمی تصور نہیں کی جا سکتی، ان میں ہمیں تمیز برتنا ہوگی۔دونوں چھابے الگ الگ ہیں، اس دُوسرے چھابے میں ہمیں ہاتھ نہیں مارنا چاہیے۔ ہمارے لیے اپنی شریعت، مسیحی شریعت پر عمل ہی بس ہمارے لیے کافی ہے۔ اسی کے لیے مقدس مسیح نے اپنی جان کفارہ کر کے ہمیں مومن مسیحی بننے کا لازوال سبق عطا کِیا۔ مزید برآں یہ کہ یہاں گنجایش بنتی ہے کہ ہم آپ کی توجہ آفاقی نجات پر مبنی خُداوند قدوس کی مرضی و منشا والے اپنے عقیدہ کی طرف ایک لمحے کے لیے منعطف کریں۔ کلیسیا کو اپنے اس عقیدہ پر مُکمَّل مان اور بھروسا ہے کہ خُداوند کریم کی بنیادی اور انمنٹ، حتمی رضا ہے جس میں سے محبت ہی محبت چھلکی پڑتی ہے اور اُسی کے ناتے وہ مکتی داتا ہمیں۔۔۔۔۔۔ ہم سب انسانوں کو مکتی عطا فرمائے گا۔ ایسے بھی قیاسات موجود ہیں جو ہمارے اس ایمان کے برعکس ہیں، اُلٹ، کہ خُدا کی مرضی،اس کا منشا خاصا محدود ہے، اس کی مشیت عالمگیر نجات کو اپنے مخصوص بندوں تک محدود رکھنے پر تُلی رہتی ہے۔ ا س نے تو ازل سے ہی اپنی ترجیحات طے کر رکھی ہیں کہ بس نسلِ انسانی کے ایک مخصوص حصہ کو ہی نجاتِ اُخروی سے سرفراز کِیا جائے گا بقیہ ذی بشر نارِ جہنم کا ایندھن بنیں گے، سدا دوزخ کا لقمہ بنے رہیں گے۔ عصیاں کاروں، عاصیوں، ہمارا مطلب ہے گنہگاروں کو خُدا نہ بخشے گا تو کیا متقیوں، نیکوکاروں، معصوموں او رپرہیزگاروں کے قصور معاف فرمائے گا؟
دوسری ویٹی کن کونسل 1962عیسوی تا 1965عیسوی کا کلیسیا کے لیے وضع کِیا گیا دستور، لُومن جینسیوم (نمبر16) اس بات کا پرچار کرتا ہے کہ وہ لوگ جو خُدا کے متلاشی اور اپنے ضمیر کے مطابق زندگی کے جویا ہیں اُنھیں الٰہی نجات مل سکتی ہے۔