German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر139

۔آپ کے ہوم پیج نے مجھے بہت متاثر کِیا، اس کی تحسین تو مجھ پر واجب ہو گئی!

گلیلیو گلیلی کوان کے سابق مقام پر واپس سرفراز کر دیا گیا۔ بہت خوب! جیؤرڈانو برُونو کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

 

جواب:۔آپ کی قدر افزائی کا شکریہ!

جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے، اس سلسلہ میں ہم آپ کے گوش گزار کر دیں کہ ہم نے جواب کے لیے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ٹولیرانٹس اُنٹ گیوالٹ(Toleranz und Gewalt) یعنی ''تحمل اور طاقت'' کے بعض منتخب حصص کو حوالہ بنایا ہے۔ ''داس کرسٹینٹم سولیشین بیبل اُنٹ شویرٹ(Das Christentum zwischen Bibel und Schwert)یعنی ''مسیحیت میانِ بائبل اور تلوار Christianity Between Bible and Sword(میُونسٹیر،2007عیسوی) جو میونسٹرمیں مقیم مؤرخِ کلیسیا جناب آرنلڈآنگے نینٹ(Arnold Angenendt) کی جانفشانی کا ثمر ہے اس سے بھی استفادہ کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

بدعتوں کی روک تھام، تفتیش اور سزائیں نافذ کرنے والی تیرھویں صدی کی عدالتِ سلطنتِ روما کے نمایاں ترین کُشتگانِ ستم میں جیورڈانو برُونو جسے 1600عیسوی میں زندہ جلا دیا گیا اور گلیلیو گلیلی (وفات1642عیسوی) کے نام پیش پیش رہے ہیں۔ سائینس اور دنیا کے بارے میں وہ مفہوم جس پر جدید تحقیق و تشریح سے مخلوقِ خُدا کو چونکایا گیا اس کے سبب دونوں ہی غیر معمولی اہمیت کی حامل شخصیات تھیں اور چوں کہ رومی عدالتِ تفتیشِ بدعات نے اُنھیں گردن زدنی قرار دیا تھا اس لیے سیدھے سیدھے دونوں ہی یہ ''بدعتی'' کلیسیا کی رجعت پسندی کی مثال بن گئے۔ برونو نیپلز کے ڈومینیکن مسیحی گھرانے سے وابستہ راہب تھا مگر بعد کی صورتِ حالات کے پیشِ نظر اسے جوکھوں کا طویل سفر کرکے فرانس پھر انگلینڈ اور پھر جرمنی جا سینگ سمانے پڑے۔ دربدری کے اس عرصہ میں بھی وہ اپنے ماڈرن خیالات اور آدرشوں کا نقیب رہا۔ لامحدود، بسیط کائنات اور جہانوں کی تکثیریت کے نظریات اس کے نزدیک چولی دامن کا ساتھ والا معاملہ بنے رہے۔ ستاروں کی خلائی دنیا میں اس نے سورج کو بھی ایک منور سیارہ بتانا شروع کر دیا۔ روم کی خصوصی عدالت براے انسدادِ بدعات نے اسے ملزم قرار دیا کہ روح القدس کے بارے میں وہ اس نظریہ کا داعی تھا کہ در اصل ویلٹ سیلے(Weltseele)یعنی روحِ دنیا اور روح القدس کی الگ الگ کوئی حیثیت نہیں، دونوں ایک ہی ہیں، ایک ہی جوہر۔ پاک تثلیث کا وہ منکر ہو گیا۔ عشاے ربانی میں اپنی ظاہری شکل مبارک برقرار رکھتے ہوئے روٹی اور مَے کا مقدس خُداوند یسوع مسیح کے جسم اور خون میں بدل جانے یعنی جوہر کی تبدیلی پر بھی اس کا ایمان نہ رہا، مقدس کنواری ماں مریم کا باکرہ ہونا بھی اس کی نگاہوں میں مشکوک ہو گیا، خُداوند یسوع پاک کے معجزے بھی اس کے یقین و گمان سے باہر ہو گئے اور پھر یہ کیا کم جوازِ مقدمہ تھا کہ پورے وثوق سے دنیاؤں کے کثرتِ وجود کا وہ قائل ہو چکا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ دنیائیں قطار و شمار اور پیمایش میں بسیط ترین ہیں، لا انتہا ہیں۔ سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ اس کے اس نظریے نے کہ خلاے بسیط میں ستاروں، سیاروں کا بے حد و بے اندازہ ہجوم اپنے اوپر الگ الگ دنیائیں بسائے پھرتا ہے۔ زمان و مکان کے لحاظ سے عالمِ موجودات کی کوئی انتہا ہی نہیں، جی ہاں، اس نظریے نے کہ کائنات میں جہانوں کی بہتات ہے، اس نے تو نجاتِ انسانی کے مسیحی عقیدہ کوبے محل ہی کر کے رکھ دیا ہے۔ چناں چہ جنوری سن سولہ سو سترہ کی تاریخ تھی جب رومن گل و گلزار چوراہے(Roman square Campo die Fiori) die Fiori)میں مچائے گئے مچ کے مچلتے لپکتے شعلوں نے برونو کو زندہ ہی چاٹ کھایا۔

(تقابلی جائزہ کے لیے دیکھیے۔۔۔۔۔۔ Ibd pp 285)

دورِ حاضر کے بہت سے مصنفین ہیں جنھوں نے رومی عدالتِ احتساب کا بغور مطالعہ کِیا ہے جو تیرھویں سے انیسویں صدی تک سرگرمِ عمل رہیں اور جو ملحدین اور بدعتیوں کی باز پرس کرنے اور اُن کو سزا دینے کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ تو ان لکھاریوں نے یہ نتیجہ اخذ کِیا کہ ایسی عدالتیں مقدمات سننے اور فیصلہ سنانے میں اس قدر ظالم نہ تھیں جتنی ایسی سیکولر عدالتیں جو مذہبی یا مقدس حوالے سے خالی تھیں اور ان پر کِسی کا ٹرائل کرتے ہوئے کلیسیائی قوانین کی پابندی واجب نہ تھی۔ وہ اس زمانے کی سزاؤں کے لحاظ سے فیصلوں میں ظالمانہ حد تک سخت گیر تھیں۔ ولیم مونٹسیر کے بیان کے مطابق رومن احتساب عدالتوں میں سیکولر عدالتوں کے مقابلے میں بہت فرق تھا۔ اس بات کی تمیز رکھی جاتی تھی کہ کون متاسف و تائب ہے اور کون عاصی ہے اور اپنے عصیاں پر پشیمان و منفعل نہیں۔ ناگہانی یا اتفاقیہ وقوع پذیر خطاؤں اور بالارادہ، دیدہ و دانستہ گناہ کا ارتکاب کرنے والوں میں جو فرق ہے اسے سامنے رکھا جاتا تھا۔ بدکار و خطا کار اور فاتر العقل سے سرزد ہونے والے جرم میں تمیز روا رکھی جاتی تھی۔ دورِ جدید سے پہلے کے ٹربیونلز کے برعکس حقیقت تک پہنچنے کے لیے، سچ اُگلوانے کے لیے رومی محتسبین جسمانی تعذیب اور تشدد پر کم ہی تکیہ کرتے تھے، مقابلۃً شہاد ت یا پُوچھ گُچھ کے ذریعے حقائق کی باضابطہ تحقیقات والی حکمتِ عملی اپناتے تھے۔ اور اکثر یوں بھی ہوتا تھا کہ کمال کی معتد بہ نفسیاتی دقیقہ رسی سے دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی الگ کر دِکھاتے تھے۔ گھناؤنے جرائم اور زیردستوں پر زبردستوں کی طرف سے قوت یا طاقت کے ناجائز استعمال پر احتساب عدالتوں کے قاضی یا محتسب اگر چاہتے تو مجاز بھی تھے کہ اُن کے خلاف موت کی سزا تجویز کرتے، کم ہی ہے کہ انھوںنے ایسا اختیار استعمال کِیا ہو، وہ تو زیادہ تر طویل، یا مختصر، یا درمیانی مدت کی قید با مشقت یا اس سے بھی نرم تر سزا سنانے کے روادار رہے۔ پایانِ کار ہمارا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ جبر سے ان کو علاقہ نہ تھا ان کی تو دلچسپی و غرض انسانی چلن کے مطابق ثقافتی بشریات میں سدھار سے تھی، وہ عمرانی سزاؤں میں یقین رکھتے تھے اور اہانت و ذلت سے دوچار کر کے مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے تھے تا کہ دوسروں کو عبرت ہو۔

ہمیں آرنلڈ انگینینٹ کی اِجمالی تنقید جو اس نے گلیلیو اور برُونو کے مقدمات پر کی ہے، اس سے اتفاق ہے۔ اس کے نزدیک تو احتساب عدالتوں کے سلسلہ میں یہ حیرت انگیز حد تک عجیب و غریب واقعات ہیں جن میں کیتھولک مسیحی کلیسیا کو ملوث بتایا گیا ہے۔ ہم بھی اس کے مشتبہ ہونے کے قائل ہیں بل کہ اسے ناممکن الوقوع سمجھتے ہیں۔

اس ساری تجزیاتی رپورٹ کا نچوڑ یہی ہے کہ مختلف تجزیات کے تقابلی جائزوں سے متاثر ہو کر ہمیں کِسی طرح کی کج روی نہیں اختیارکرنا چاہیے نہ ہی اہم اساسی تنقید جو گذشتہ صدیوں کی احتساب عدالتوں پر ہو رہی ہے اس سے گمراہ ہونے کی گنجایش چھوڑنا چاہیے۔ البتہ اتنا ضرور کِیا جا سکتا ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ خود بھی بے انصافی نہ کریں اور جہاں ہوتی نظر آئے وہاں ایسا کرنے والوں کی ضروری حوصلہ شکنی کریں۔ کوئی بھی تنقید، کوئی بھی تجزیہ حرفِ آخر نہیں ہوتے اور وہ تو حرفِ اوّل بھی نہیں جو نتیجہ یہ نکالیں کہ یہ خصوصی عدالتیں بہتر عدالتیں تھیں، حال آں کہ وہ اتنی بھی ''بہتر'' عدالتیں نہ تھیں چہ جاے کہ بعض انھیں''بہترین'' بھی کہتے ہیں۔ ٹھیک یہی وہ مقام تھا جب کیتھولک کلیسیا نے نزاکتِ وقت و معاملہ کا احساس کِیا اور خفت محسوس کرتے ہوئے اپنے ابتدائی مسیحی پیمانِ وابستگی سے پہلوتہی اختیار کر لی تا کہ مذہبی معاملات میں طاقت کے استعمال کا حصہ نہ بنا جائے۔ تاہم پھر بھی مذہبی حوالوں سے مبرا عدالتوں سے احتساب عدالتوں کی کارکردگی کا موازنہ کوئی اتنا غیر ضروری بھی نہیں۔ انصا ف کا تقاضا ہے کہ انسدادِ بدعات کی مشہورِ زمانہ جھوٹی سچی، بیتی یا من گھڑت داستانوں کو تحقیق کی چھلنی سے گزارا جائے تا کہ کالی وکھریاں، چٹی وکھریاں (سیاہ و سفید الگ) ہو جائیں۔ مُکمَّل تاریخی سیاق و سباق کا ادراک کرتے ہوئے ہی اس کی کارروائیوں کو جانچا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ان عدالتوں کو افواہوں کے گھیرے میں سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تاریخ پر نظرِ ثانی کر کے اصل حقائق سامنے لائے جائیں اور جو لوگ اس سب کچھ کو رِی وِزٹ کر رہے ہین بڑی دُور دُور کی کوڑی سامنے لا رہے ہیں، مثلاً ان کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے بل کہ اب تک لوگ باگ غلط بیانیاں کر رہے ہیں اور ایسا منظر نامہ پیش کرتے ہیں جو بہت ہی بھیانک اور ظلم و تعدی کی مار دھاڑ سے بھرپور ہے۔ انسان پر لرزہ طاری کر دینے والے مناظر کی تفصیل اکثر و بیشتر من گھڑت ہوتی ہے۔ سکہء رائج الوقت کی طرح بعض سخت سزائیں بھی رائج الوقت تھیںاور ان پر عمل سماج اور جاری روایات کا تقاضا بھی تھا، مقدمے کے میرٹ پر اُن سے استفادہ کر لیا جاتاہو گا۔ بہ ہرحال بات تو کوئی بھی حرفِ آخر نہیں ہوتی، اصلاح و ترمیم کی گنجایش تو باقی رہتی ہے۔ مسیحیت کا اقدام بھی درست تھا۔ دیکھیے نا، ایسا مذہب جو محبت براے کُل کے اپنے دعوے پر پورا اُتر دِکھانا چاہتا ہو، اپنے آپ کو کہتا ہی محبت کا مذہب ہو اور یہ تصور دیتا ہو کہ انسانوں کو خُدا نے اپنی صورت خلق کِیا اور وہ ہر طرح اسی کا عکس ہیں وہ بھلا ایسی حرکتوں، ایسے افعال کی کیسے اجازت دے سکتا ہے جو پورا سیناریو ہی بدل کر مہیب بنا دیں۔ اگر کوئی ایسی بات فیصلے میں آ بھی جاتی تو مسیحیت ممکن نہیں تھا کہ ایسی عدالتوں کی پُشت پناہ رہتی۔ چناں چہ جب مناسب وقت آیا مسیحیت نے تعاون سے اور ایسی عدالتوں کا حصہ بننے سے ہاتھ اُٹھا لیے۔ ہمارا جواب آپ کو دوآتشہ لگے گا۔ نمبر ایک، تاریخی حوالوں سے، نمبر دو، دینی نقطہء نظر سے۔

اگر تاریخ کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو یوں ہے کہ جب مسیحیت بہار کی طرح ہر طرف اپنے عقائد کے پھول اور مذہبی رسموں کی کلیاں خلقت پر نچھاور کر رہی تھی تو چہار سُو پھیلنے والی خوشبو مقدس نئے عہد نامہ کی ان آیات کی مبارک ہواؤں کی مرہونِ مِنّت تھی۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔مگر یسوع نے اُنھیں اپنے پاس بلا کر کہا: تم جانتے ہو کہ غیر قوموں کے سردار اُن پر حکم چلاتے ہیں اور اُمرا ان پر اختیار جتاتے ہیںلیکن۔۔۔۔۔۔ تم میں ایسا نہ ہو گا بل کہ جو تم میں بڑا ہونا چاہے، وہ تمھارا خادم ہو۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔25:20، 26

ان رومی احتساب عدالتوںکا مقصد وہ قطعاً نہیں تھا ، جو قیاس کِیا جاتا رہا ہے۔ دین میں بدعتوں کی روک تھام، اور دین کی حفاظت ان کے دائرئہ کار میں آتی تھی۔ عدل ان کا مطمحِ نظر تھا۔ اسی لیے نسبتاً ظلم اور رائج تشدد میں دوسری عدالتوں کی سخت گیری کے مقالے میں کئی درجے کم تر ہی تھیں۔ ان کے اس عمل او رپابندی کا اعتراف نہ کرنا صاف بات ہے کہ تاریخی نا انصافی اور تعصب ہی کہلائے گا۔ دینی ردِّ عمل البتہ ان کا خاصا مختلف تھا، یہ کیوںکر ممکن ہے کہ انتہا کے ظلم اورتعدی کی کلیسیاکی طرز سے کِسی بھی نہج کی کوئی بھی، کِسی حد تک بھی حوصلہ افزائی اس سے سرزد ہوتی جب کہ مسیحیت نے تو عدم تشدد کے پھریرے ہر طرح لہرا رکھے تھے۔ اس کا تو سٹرکچر ایسا تھا اور اب بھی ہے کہ اس کے نزدیک تو کلیسیا کو بقا اور رہنمائی حاصل ہی روح القدس کی ذاتِ پاک سے ہے جو مقدس روح الحق ہے۔ کلیسیا کا سارا انتظام و انصرام ہمیشہ سے ہی پاپاے اعظم کے زیرِ کمان رہا ہے اور سدا رہے گا۔ سنہ 2000عیسوی کی مقدس تقریب میں تقدس مآب پوپ جان پال دُوُم کی طرف سے کی گئی معافی تلافی کی اپیلِ عام جس خلوص، صداقت و محبت کے جذبے سے کُل عالم سے کی گئی وہ مسیحیت کے امن، محبت، دوستی، رواداری اور عالمگیر برداشت، احترامِ ادیان اور یگانگت کے جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (مقدس پوپ کی اس التماس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے جواب سوال نمبر41ملاحظہ فرمائیے۔ ویٹی کن کونسل دوم کے مذہبی آزادی کے اعلامیہ پر بھی نظر ڈال لیجیے، شکریہ)۔

درحقیقت، مُلحدانہ خیالات اور بدعات کو رواج دینے کی روک تھام کے لیے قائم کی گئی رومی احتساب عدالتوں کو بے خطا ٹھہرانے اور جبر و تشدد کے الزامات سے انھیں سبکسار کرنے کی کوششوں کو قابلِ صد احترام و تقدیس پوپ نے خاصی ناکافی قرار دیا، جواز یہ تھا کہ اس زمانہ میں قائم جو دیگر ٹربیونل تھے ان کے مقابلے میں احتساب عدالتیں کہیں زیادہ اعتدال پسند تھیں اور اپنی کارکردگی میں زیادتی سے احتراز کرنے والی تھیں۔

کیا یہ ایسا کیس، صورتِ حالات اور تاریخی صداقت نہیں کہ اس کے ضمن میں اب تو ان عدالتوں کے فیصلوں، نصب العین اور ان کے قیام و عمل پر پیدا ہونے والے اختلافات صلح جویانہ مکالمہ کے ذریعے طے کر لیے جائیں؟ پاپائیت کی عالمگیر رہنمائی اس کارِ خیر کے لیے انتہائی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

(A. Angenendt, Toleranz und Gewalt, pp. 293-94.)


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?