:سوال نمبر154
۔ لاطینی امریکا کی کلیسیا کیوں خم ٹھونک کر زمینداروں، جاگیرداروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے الٹا خدام الدین (پریسٹ حضرات) کی سرزنش پر اتری ہوئی ہے، جب کہ پریسٹ حضرات اپنا فرضِ خدمت ادا کرتے ہوئے غربت و افلاس کے مارے لوگوں، ہاریوں، کمی کمینوں اور مزارعین کے حامی و ناصر ہیں؟
جواب:
۔اس ہماری ننھی سی دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے باشندے اپنے ناموافق ایامِ زندگی اور اپنی حالتِ زار سے نالاں و پریشان ہو کر اس سے کوئی سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ ایسے نظامِ بے جا اور غیر منصفانہ سے انھیں کبھی نہ مساویانہ سلوک ملا نہ عدل۔ نسلاً بعد نسلاً ان کی اکثریت جبر و ستم، جہالت، بے کسی وکسمپرسی، ناامیدی و ناچاری اور بے یاری و بے مددگاری کا شکار رہی۔ اب آپ اپنی حالت بدلنے کی ذمہ داری سے جاگتے احساس کے ساتھ تمام پسماندہ و راندی ہوئی اقوام جبر و استحصال کی قیدی نہیں رہ سکتیں طبقاتی ناہمواریاں انھیں ہرگز قبول نہیں۔ محنت کی عظمت اور احترامِ آدمیت منوانا ان کا نصب العین بن چکا ہے۔
سماج کی بے انصافیوں، ستم پروروں کی ستم رانیوں، ظالموں کے ظلم اور جابروں کے جبر سے آزادی کی دینی منطق شروع ہی اس سوال سے ہوتی ہے کہ بات تو کریں ہم لوگوں سے خدا کی محبت و مہربانیوں کی، کرمِ ربوبیت کی، عنایاتِ مربیانہ کی اور غریبوں پر دستِ رحمت و شفقتِ خداوندی کی، در آں حالے کہ ایک دنیا، خاص کر لاطینی امریکا کی ریاستوں میں موجود پِسی ہوئی خلقِ خدا تنگیِ رزق، افلاس، مشکلوں، مصیبتوں، دُکھوں، اذیتوں، ذہنی و جسمانی کرب، ناسازگارِ حالات کے آئے روز بڑھتے ہوئے بوجھ تلے دبی تلملا رہی ہو۔ بحکمِ خداوند پریسٹ صاحبان ان کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں، دوسرے لوگوں، قوموں، ملکوں کو ان راندہ طبقات کے لیے تعاون پر اُبھارتے ہیں، خود ان پریشان لوگوں کو اپنی مدد آپ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ متحدہ مساعی کو عمل میں لا کر ان کے جمے پیر اُکھڑنے سے بچا لیں۔ کِسی کو بغاوت پر اُکسانا ان کا منصب نہیں، ان میں حالات سے نبرد آزما ہونے کی سمجھ بوجھ، آگہی پیدا کرنا مقصود ہے، تو پھر سوال ہے کہ پریسٹ حضرات پر نالش کیوں، انھیں موردِ الزام کِس بنا پر ٹھہرایا جائے، ان کے لیے لاطینی امریکا میں سزائوں اور قید و بند کے پھاٹک کیوں کھولے جائیں؟ انھیں دِینی خدمت، خدمتِ خلق سے کیوں روکا جائے؟ اس سوال کا لازماً جواب تلاش کرنا پڑے گا۔ مسیحیت کی لبریشن تھیالوجی پوری تندہی اور خلوصِ نیت و کامل محبت کے ساتھ ان تمام سوالوں کے جواب اور ان مسائل کے حل تک پہنچنے کے لیے ’’روح القدس کی ہیکلوں‘‘ کی فلاح و بہبود کی خاطر مستعد و فعال ہے۔
لاطینی امریکا کی بشپس کانفرنس میں غریبوں کے لیے ترجیحی بنیاد پر متشکل لبریشن تھیالوجی کے اصولی مطمحِ نظر پر صاد کرتے ہوئے میڈیلن 1968عیسوی کے کلیسیائی اُمُور کے لیے مشاورتی اجتماعِ عمومی میں اس کی منظوری دے دی گئی تھی۔ تقدس مآب پوپ پال ششم نے اپنے وجدان سے نشاندہی کی تھی، کِسی نہ کِسی دِن بل کہ جلد (ظلم و ستم، جبر اور دباو سے) آزادی ایک لحاظ سے نجات کے معانی میں ضم ہو جائے گی۔ ہر طرح کی غلامی سے آزادی کی یہ اصطلاح مسیحی فرہنگ میںجسے مکتی کہتے ہیں اس کے ہم پلہ ہو جائے گی، اسی کی مستحق ہے۔ نہ صرف اپنی بلاغت اور اثرانگیزی و ولولہ انگیزی میں بل کہ اپنی افادیتِ دنیاوی و روحانی و اُخروی میں بھی کیوں کہ اس میں مخلصی کے تمام پہلو کوٹ کوٹ کے بھرے ہیں۔ (حوالہ خطاب بتاریخ31جولائی1974 عیسوی)
لائقِ تقدیس جناب پوپ جان پال دوم نے بھی لاطینی امریکا کی الٰہیات کے ضمن میں اپنے فرمودات کے ذریعے واضح کِیا تھا کہ یہ آزادیِ انسان کو اُس بنیادی مرتبہ پر لا کھڑا کریں گی جہاں آزادی اس رہنما اصول کے تحت حکمِ مطلق کا درجہ پا لے گی جِس کی تعمیل مشکلات و ابتلا میں پڑی انسانیت اور ارتقا پذیر معاشروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کی خاطر مذہبی و سماجی طور پر لازم ہونے کا مقام حاصل کر لے گی۔ انسان کو درپیش مشکلات و مسائل کے حل میں مدد دینا دینی فریضہ ہی تو ہے۔
اس پیغام کے عقب میں جو قوت ہے وہ تشویق دِلاتی ہے ایک طرح سے نئی شروعات کی، جس کا جوہر ہے نجات اور نجا ت محرک ہے مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور خاص طور پر ضمیر کی آزادی کی تحریک کی اور اس تحریک کے ذریعے حرکتِ عمل کے لیے شوق و ذوق پیدا کرنے کی جس کے نتیجے میں غیر انسانی صورتِ حالات بدلنے کی مساعی کو تقویت ملتی ہے بل کہ تبھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔
کیتھولک تعلیمات کے مطابق یہ عین صحیح اورحق بجانب فعل ہو گا ان لوگوں کا جو مبتلاے جبر و استبداد ہیں، اذیت دہ اثرات کو برداشت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں اور دولت کے بل بوتے پر اثر و طاقت رکھنے والے اشخاص اور متقدر سیاسی شخصیات کے تارِ عنکبوت میں پھنس کر بے بس ہو چکے ہیں، اب اپنے کھمبوں(پروں) سے مٹی جھاڑیں، ہوش کے ناخن لیں اور اخلاقی طور پر قابلِ قبول حکمتِ عملی سے کام لیں، عقائد و قوانین اور اصولوں کا اور بین الجماعتی، بین الافرادی اور بین الادارتی تعلقات کا ایک نسبتاً محکم نمونہ جو ان کے معاشرتی گروہ کے لیے تعاونِ باہمی کے ڈھانچے کا کام دے، اس کوکام میں لاتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کا اہتمام کریں۔ پرامن طریقے استعمال کرنے والے پِسے ہوئے لوگوں کا اتحاد پیسنے والوں کو اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے روک سکتا ہے، انھیں ان کی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ جاگتی آنکھوں دیکھے گئے ان کے سپنے عدم تشدد کے ہتھوڑے سے چُور کر سکتا ہے۔ بس ان تشدد کا شکار انسانوں کو آنکھیں کھولنے ، بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں نا
احساس نہ مر جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی
(Instruction of the Congregation for the Doctrine of the Faith on Christian freedom and liberation, dated 22.3.1986, 75 ff)
فطری اخلاق کے تقاضا بموجب ایسی مخدوش صورتِ حالات جس کا حریت و آزادی سے محروم طبقات کو سامنا ہے، ان کے لیے جن ٹھوس اور مؤثِّر اقدامات کی اجازت دی جا سکتی ہے وہ مکمل طور پر منحصر اور مرتکز ہونا چاہییں انسان کے وقار اور اس کے حقِّ آزادی پر، آزادیِ راے، آزادیِ ضمیر اور معاشی، معاشرتی، مذہبی و سیاسی آزادی پر۔ا گر حقوقِ آزادی کا احترام مفقود ہے جب کہ آزادی کے اس حق کو تمام حقوقِ انسانیت پر اولیت حاصل ہے، پھر وہ آزادی کیا آزادی ہوئی، وہ تو غلامی سے بھی بدتر ہو جائے گی۔
قابلِ توجہ امر یہ ہے، اپنے ہمسایے سے محبت کا فرمانِ مسیحیت اس جذبے کا ہم آہنگ نہیں ہو سکتا کہ ہم باقی تمام لوگوں کے خلاف نفرت پال لیں، انفرادی طور پر بھی نہیں اور اجتماعی طور پر بھی نہیں، ہرگز نہیں۔ ’’ مذہب نہِیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘۔ اناجیلِ مقدس کی روح تک رسائی کی ضرورت ہے۔ وہ آزادی، نجات، مخلصی کے بارے میں اپنا حتمی فیصلہ یہ صادر کرتی ہیں کہ لوگوں کا اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اصول و قواعد کے مطابق قوت و طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے آمادہ بر تشدد اور انسانوں کے حقوقِ مساوات سلب کرنے والوں کے خلاف جب مدافعت و مزاحمت کی جائے تو پرامن مدافعت اور پرحکمت مزاحمت کے لیے تدبر و حوصلہ عمل میں لانا بہت ضروری ہے تشدد کا جواب تشدد نہیں ہوتا۔ جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے، اپنے حق کے حصول کے لیے پرامن ذرائع استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، میدانِ کارزار گرم کرنے کی نہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے بجاے، مصالحت پسندی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ جبر و ستم کا توڑ امن و تدبر ہے، حق پر ہونے کا حوصلہ ہے، ورنہ تشدد سے تو تشدد کو ہی بڑھاوا مل سکتا ہے۔ لڑائی میں بھی دانائی کام آتی ہے فقط مار پٹائی سے کچھ نہیں ملتا بس زخم ملتے ہیں۔
اپنے حقوق کے دفاع میں امن و آشتی، افہام و تفہیم اور عدم تشدد کی پالیسی اپنانا اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ عصرِ حاضر کی تاریخ میں ایسی بہت سی پایدار مثالیں موجود ہیں۔ مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر۔ آیا امن، محبت، بھائی چارے اور عدم تشدد کی راہ پڑنے سے کامیابی کی منزلِ مراد کو جا چھوا جا سکنا ممکن ہے؟ ہاں! مگر ایسا ممکن بنانے کے لیے دیکھنا ہو گا کہ وہ جو بالا دست ہیں، جن کے پاس طاقت، اثر اور اختیار ہے وہ بھی اس ذہن و دل کے مالک ہیں کہ آمادہ ہو جائیں، اتفاق کر لیں، دن کو دِن مانتے ہوئے، نامناسب، ظالمانہ و جابرانہ صورتِ حالات کی تبدیلی گوارا کر لیں؟ کرنا تو پڑے گی۔ جب انسان جاگ جائے تو اس کی ہر جائز تمنا کا پورا ہونا نوشتہ بردیوار ثابت ہوتا ہے۔
جبر و تشدد کِسی بھی شکل میں ہو ناقابلِ قبول ہے۔ دساتیر، قواعد، اداروں اور نظام میں جیسی بھی اصلاحات، کم، زیادہ کتنی بھی ہو سکتی ہوں، انھیں انسان کی انا پایمال کرنے والوں، آدمیت کا احترام نہ کرنے والوں، انسان کی خودی کچل دینے والوں کے خلاف ہتھیار اُٹھا لینے، خونیں قسم کا انقلاب برپا کرنے پر ہمیشہ ترجیح دینا چاہیے۔ صدیوں سے بگڑے نظام، اس نظام میں پلتی سماج یوں جنگجویانہ جبلتوں سے آن کی آن میں تبدیل کرلینا آسان کام نہیں، خون کی نالیاں بہتی ہیں اور مدتوں بہتی چلی جاتی ہیں۔ ماڈرن زمانے، اِس جدید دور میں سامنے کی بات ہے انقلابات کے پیچھے نظریات کی طاقت ہوتی ہے اور طاقت کا عفریت جب بپھرتا ہے تو اس کے نتھنوں سے انارکیت کی پھنکاریں پھوٹنے لگتی ہیں اور آنکھوں میں جارحیت کی سرخی اتر آتی ہے۔ کچلے ہوئے لوگ کچلنے والوں کا کچلہ بنا دیتے ہیں، غیر منصفانہ سخت گیری، شدت اور سختی کا برتاو سکہء رائج الوقت بن جاتا ہے۔ ایسے آپریشن سے نئے اوپریشّن کو زندگی ملتی ہے۔ غالب مغلوب اور مغلوب غالب ہو جاتے ہیں، طوائف الملوکی کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے جینے کا حق وصول کرنے والے دوسروں کو اس حق سے محروم کر دیتے ہیں۔
البتہ، تشدد کا جواب عدم تشد دسے دینے کی کوشش اگر لاحاصل ثابت ہو، حالات میں ذرا بھی تبدیلی آتی دِکھائی نہ دے، ظالمانہ اور نامعقول رویوں کا دباو بڑھتا ہی چلا جائے تو پھر سختی کو معقول سختی سے کچل دینا ہی حتمی آپشن قرار پا سکتا ہے، مگر مکرر گوش گزار کر دیں کہ یہ ردِّ عمل تب روا ہے جب او رکوئی راہ باقی نہ بچے۔ ایسا جوابِ آں غزل جس کے متعلق عام قیاس یہ ہو کہ عدم تشدد والوں کے تشدد پر اترآنے کی سٹریٹجی جارح و جابر کو مزید مشتعل کردے گی تو پھر ہر بڑھتا ہوا قدم پھونک پھونک کر آگے بڑھانا ہو گا۔
خلقِ خدا کی مسلسل بہتری کے لیے پاپاے اعظم کے چوپانی فرمان Encyclical Populorum Progressioنمبر31کا حوالہ دیتا ہوں کہ تقدس مآب پوپ پال ششم نے اس تُرکی بہ تُرکی جواب دینے والی ترجیح کے بارے میں خبردار کِیا کہ جب محسوس کِیا جائے، اظہر من الشمس ہو کہ اب ان جارح قوتوں کے خلاف ہتھیار اُٹھا لینے کے سوا کوئی حل نہیں بچا، لوہے کو ہی لوہا کاٹ سکتا ہے، مسلح مدافعت ناگزیر ہے، اس کے بغیر جور و تشدد کے پایندہ و مستحکم و مضبوط دور کا خاتمہ ممکن ہی نہیں، یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق کی پایمالی سے باز نہ آئیں گے، قوم و ملک کی فلاح و بہبود اور عوام الناس کی خوشحالی کی راہ میں تباہی و بربادی پر تُلے ہوئے یہ طبقے سدِّ سکندری اوپر سے اوپر ہی اُٹھاتے چلے جائیں گے… تو اس مرحلہ پر جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کرنے کے لیے طے شدہ قاعدے قرینے ہیں جن کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے بھی مخلصی کے ضروری اقدامات عمل میں لائے جاسکتے ہیں۔ دوسروں سے انسانی اقدار کے احترام کا مطالبہ کرنے والے خود بھی ان قدروں کے احترام کا پاس کریں، مرتا کیا نہ کرتا والی تھیوری کو مجلس براے مذہبی عقائدِ مسیحیت (Congregation for the Doctrine of the Faith)نے اُ س جبر و استبداد اور حق تلفیوں کے نتیجہ میں برآمد ہونے والے نقصانات، تباہیوںاور اپنے حقوق واپس چھیننے کے لیے مرنے مارنے پر تُل جانے والے رجحان کے نتیجہ میں پیش آنے والے جانی مالی نقصان اور املاک کی تباہی کے درمیان باریک اور نازک جالی سے تعبیر کِیا ہے جو بطور نقاب استعمال ہوتی ہے… یہ جائز مدافعت ہے نہ دُرُست مزاحمت بل کہ ایک نئی جارحیت کے راستے کھولنے والی حکمتِ عملی ثابت ہو سکتی ہے۔
(Instruction on Christian freedom and liberation, nr. 76)
دورِ حاضر میں تمام ممالک اور کلیسیائوں کو دعوتِ عام ہے کہ آئیں اور اپنی اپنی بساط مطابق اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کریں تا کہ اس سنسار میں پھر کبھی نہ ایسے ابتر حالات پیدا ہو سکیں کہ ناقابلِ برداشت جبر و استبداد کے خاتمہ کے لیے عوام الناس کو ایسے اقدامات اُٹھانے پر مجبور ہونا پڑے جنھیں وہ خود بھی حقیر گردانتے ہوئے ان سے احتراز کے خواہاں ہوں۔
Katholischer Erwachsenen-Katechismus. 2. Bd. Leben aus dem Glauben [Freiburg: Herder , 1995],p. 260-262
سے مزید استفادہ کِیا جا سکتا ہے۔