German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

عبادت اوردُعا

 

۔مسلمان دوست جاننا چاہتے ہیں کہ-1

٭آپ کا عبادت کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کب اور کہاں نماز پڑھتے ہیں؟ دِن میں کتنی مرتبہ عبادت کرتے ہیں؟ 

٭عبادت سے پہلے طہارت کا آپ مسیحیوں کا کیا طریقہ رائج ہے؟ کیا یہ مذہبی طور پر آپ پر لازم ہے کہ پاک صاف ہوں، غسل یا وُضُو کریں؟ 

٭کیا خواتین بھی مناجات، دُعا، تمجید، عبادت سبھی کچھ کی بجا آوری کرتی ہیں؟ 

٭تو کیا آپ کا ہر لمحہ عبادت میں گذرتا ہے، یا عبادت کے لیے خاص مواقع مخصوص ہوتے ہیں؟ 

٭بڑے مذہبی تہواروں کے لیے آپ کے ہاں مخصوص عبادات اور دُعائیں ہوتی ہوں گی، دُرُست؟ 

٭عبادت کس زُبان میں کرتے ہیں؟ 

٭عبادت یا نماز میں کِن کِن خاص بدنی حالتوں کو اختیار کِیا جاتا ہے؟ صلیب کی علامت سے کیا مُراد ہے؟ 

٭عبادت کیوں کرتے ہیں آپ؟ کیا اِس لیے کہ یہ حکمِ ربّی ہے؟ یا پھر دِینی احکامات اور قواعد کے احترام میں آپ عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں؟ تو کیا جنت کا حقدار بننے کے لیے؟ یا اس لیے کہ عبادت کرنے سے آپ کو ایک گو نہ سکون ملتا ہے اور اپنے آپ کو بہتر خیال کرنے لگتے ہیں؟ 

٭کیا ہم بھی بحیثیت مسلمان آپ کی عبادات میں شرکت کر سکتے ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اکٹھے نماز پڑھیں؟ اگر ممکن ہے تو ہماری مشترک عبادت کی عبارت کیا ہو گی؟ 

٭کیا مسیحی عبادت خانوں میں اتنی گنجایش ہے کہ مُسلمان بھی وہاں نمازیں ادا کر پائیں؟ 

٭مسیحی عمارت، گرجا گھر، میں آیا ایسا ممکن ہے کہ مُسلم عبادت کے لیے بھی الگ ایک کمرا مخصوص کِیا جا سکے؟ 

۲۔اسلامی نقطہءنظر 

اجمال عمومی 

مطالب ومعانی کے اعتبار سے الفاظ عبادت اوردعا ہشت پہلو ہونے کا درجہ رکھتے ہیں اور اپنے اسلامی مترادفات پر مِن وعَن منطبق نہِیں ہوتے۔ ہم جس اسلامی نظریے کا احاطہ کرنا چاہتے ہیں وہ ہے عبادت سے مُتعلّق جو بندگی ہے۔ عبادت اطاعت وعبودیت کا حسین امتزاج ہوتی ہے جو اپنے معبودِ حقیقی کے لیے ہی مختص ہوتی ہے۔ اسلام تفریق روا رکھتا ہے، صلوٰة یعنی نماز میں۔ کہ روزانہ پانچ نمازیں فرض عبادت ہیں اور اُن کے ادا کرنے کے اوقات تک مقرر ہیں، چُناںچہ اُن میں اور نفلی عبادات میں جو مومنین اپنی رضا ورغبت وبساط مطابق ذاتی طور ادا کرتے ہیں۔ چاشت، اشتراق، صلوٰة اللَّیل، تہجد، تلاوتِ کلام اللہ، شکرانے کے نوافل، حاجب براری اور مَنَّت کے نوافل، ذِکر اذکار، فکر، وظائف اور دُعا، دُعا کو تومخ العبادة کہا گیا ہے۔ اسی طرح استدعا، حمد، نعت، مناجات سبھی عبادتِ الٰہی ہیں۔ اگر کوئی فرض عبادت کی ادائی سے مُتعلّق استفسار کرے تو اس کی مُراد جبلّی طور پر ایک ہی ہوتی ہے، چاہے پوچھنے والا مرد ہو یا مُسلم خاتون، اُس کا سوال یہی ہوتا ہے کہ نماز پڑھی یا نہِیں؟ شرعی طور پر اِس کی حدود مقرر ہیں کہ نماز کب، کہاں اور کیسے قائم کی جائے، فرض تو بہرحال باجماعت ادا کرنے کی تاکید ہے۔ یہ عبادت سب پر فرض ہے، ہر کوئی اپنے اپنے مسلک کے مطابق ادا کرتا ہے اور پابندی سے ادا کرتا ہے، مسجد میں، باجماعت، کیوںکہ 

روزِ محشر کہ جاںگداز بود 

اوّلین پُرسِشِ نماز بود 

کلمہ طیبہ کے بعد، دِن کا جو ستون ہے، وہ نماز ہی ہے۔ باقی سب کی حیثیت ثانوی ہی کہلائے گی۔ 

مسیحیوں کا سوچ اس کے برعکس ہے، وہ عبادت کو رُوح اور دِل کا معاملہ قرار دیتے ہیں، ان کے حساب سے عبادت جو ہوتی ہے نا وہ کسی مخصوص مذہبی رسم کی پابند نہِیں ہوتی، دیکھیے نا، بڑا فرق ہے، مسلمان اگر کہیں کہ.... مَیں عبادت چور ہُوں، یعنی نماز نہِیں پڑھتا، اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مَیں پابندی کے ساتھ باجماعت نماز ادا نہِیں کر پاتا۔ اِس کے باوجود صُورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ ذاتِ والا شان تو ہر دم اور لازماً اُس کے فکر اور اُس کے سوچ کا مرکز ہوتی ہے۔ نماز میں ،مناجات میں اور دُعا میں تو یقینا خُداوند کریم اُن کے سامنے موجود ہوتا ہے بل کہ ہر دم کہ وہ ہر جگہ موجود ہے، مگر اِن عبادات کے لمحات میں تو شہ، رگ سے بھی قریب اور.... خُدا کے سامنے یہ عبادت گُزار بندے حاضر وناظر، جب مسیحی اپنے روایتی راہبانہ انداز میں ”ہولی یوخرست (پاک شراکت)کے سامنے دوزانو ہوتے ہیں تو یہ طریق مُسلمانوں کی نماز سے ملتا جُلتا ہے، طرزِ عبادت مقرر، اوقات کی پابندی لاگو۔جو دُنیاے اسلام میں دِل وجان اور پورے خُلُوص سے دائرہ_¿ تصوُّف سے متصف صُوفیہ کرام کی زِندگی کے بِرتے پر اور اخوان المسلمین کے طریقِ عبادت میں ہے وہ کیف ومستی، جذب وبے خُودی کہ جو فنا فی الدین ہو کر ہی عابدوں کا نصیب بنتی ہے۔ ہائے وہ مراقبے میں استغراق، اطاعتِ الٰہی وبندگیِ آقا ومولا کا مُکمّل ادراک واحساس جو عبادت کو روحانی، داخلی ووِجدانی اور زُبانِ بے زبانی والی منزلوں سے آشکار کرتی ہے! ورنہ تو 

زِندگی بے بندگی شرمندگی 

مسیحیوں کی جو بھی باقاعدگی سے ادا کی جانے والی مذہبی رسمی عبادتیں ہیں وہ اِس طرح سرانجام نہِیں دی جاتیں جس طرح کہ نماز جو مسلمان باقاعدگی اور پابندی سے ادا کرتے ہیں، غالباً اِس کی وجہ یہی ہے کہ مغرب میں مادّیت پرستی کے زیرِ اثر لوگ عبادت میں ڈنڈی مار جاتے ہیں، مقابلتہً مسلمانوں کی عبادت میں باقاعدگی ہے، وہ کھلے عام اپنے معبود.... اللہ.... کے سامنے جھکنے، سجدہ ریز ہونے میں کوئی جھجک محسُوس نہِیں کرتے اور انھیں یہ مظاہرہ ہونے دینے میں کوئی عار نہِیں کہ لوگ دیکھیں، انھیں پتا چلے کہ اِن سرِعام نماز پڑھنے والوں کا تعلُّق مُسلِم اُمّہ سے ہے۔ وہ اُمّتِ مُسلمہ کا جُزو ہونے پر افتخار محسوس کرتے ہیں، اُن کی اللہ تبارک وتعالیٰ کے ماوراے ادراک ہونے کی صفت بارے ہوشمندی عباداتِ اِسلامی میں اللہ کریم کی عظمت، ہیبت، قدرت اور طاقت کو سامنے لاتے ہوئے اُن کی نمازوں کو ایک تقدُّس، شان اور بندگی کی معراج عطا کر دیتی ہے۔ شریعت میں پوری تفصیل اور اہمیت کے ساتھ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات کو بیان کر دِیا گیا ہے تاکہ اسلامی شعائر، ارکان اور عبادت صحیح طریقے سے ٹھیک ٹھیک انجام دیے جائیں، مثلاً طہارت، پاکیزگی کے لیے وضو اور غسل، عبادت کے دوران اختیار کی جانے والی مختلف جسمانی حالتیں اور اختیار کِیا جانے والا لہجہ (یعنی صوتی، سِرّی، دھیمی آواز یا بآوازِ بُلند) مسیحیت میں یہ جو تصوُّر ہے کہ خُدا ہم میں زِندہ وموجود ہے، وہ ہمارے درمیان بستا ہے، اِس سے بندے اور خُدا کے درمیان ایک طرح کی اُنسیت تو ضرور پیدا ہوئی، بے شک! مگر اندازِ نظر کی اِس بے جھجک آزادی سے عقیدت آمیز تعظیم وتکریم میں ایک طرح کی کمی بھی دَر آئی ہے۔ 

المختصر یہ کہ ظاہری طریقِ عبادت کو اسلام انتہائی اہمیت ووقعت مختص کرتا ہے جب کہ مسیحیت میں اس بات پر زور ہوتا ہے کہ عبادت کا عمل دِل سے ادا ہو۔ ایک بیرونی مظاہرِ عبادت پر توجُّہ دیتا ہے تو دوسرے مذہب میں اندرونی کیفیات کو ترجیح حاصل ہے۔ 

تفصیلِ اجمال 

اسلام میں لفظ ”عبادت“ مخصوص دینی عمل کے لیے مُستعمِل ہے۔ 

۱۔نماز باجماعت کی شرعی حیثیت 

صلوٰة یعنی نماز اِسلام کا دوسرا اہم سُتُون ہے، یہ فرض عبادت ہے اور پرستشِ الٰہی کا لازمی جُزو ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے نمازی دُنیا بھر کے مومنین کے ساتھ رشتہءیگانگت واشتراک میں جُڑ جاتا ہے۔ ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک، بھانت بھانت کی ثقافتوں میں رچے بسے مُسلم بھائیوں کے ساتھ، پہلے کے اور بعد کے سب ایمان لانے والوں کے ساتھ اور باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے تو رفاقت اور بھائی چارے کا تعلُّق مزید پختہ ہو جاتا ہے باوجودے کہ مسلکی یا فرقہ وارانہ اختلافات کے۔ نماز بندے میں اللہ تعالیٰ کے لیے خاص عقیدت، اُس کے لیے وارفتگی اور اپنے معبودِ حقیقی خُداوند کریم کے لیے بندگی کی کتنی ہی رمزیں پیدا کر دیتی ہے جن سے نمازی سرشار ہوتا ہے۔ مثلاً تلاوت، قرا_¿ت، سماعت، استغراق، اللہ تعالیٰ کے حضور پُراخلاص توجُّہ اور یہ یقین کہ اُس کی بارگاہ میں حاضر ہیں۔ عبادت کا آغاز حمدِ باری تعالیٰ سے ہوتا ہے اور شکرِ خُداوندی ادا کِیا جاتا ہے، مغفرت طلب کی جاتی ہے اور اللہ الرحمن الرحیم کی رحمت عطا ہونے کی التجا کی جاتی ہے، اور موقع محل کی مناسبت سے گریہ واظہارِ ندامت کِیا جاتا ہے، وسیلہ یابی کی اور بخشش کی درخواست اور شفاعت کی تمنا پیش کی جاتی ہے۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ارکانِ عبادت کی صحیح ادائی اور یہ جب بھی، جہاں بھی ادا کی جا رہی ہو تو اس کا حاصلِ حصول، ثمرِ وصول وہی ہو جو کچھ اوپر مذکور ہے، طریقِ عبادت کو تفصیل کے ساتھ سکھا دِیا جاتا ہے، جوقرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس کے قواعد وضوابط کا قرآن وحدیث کی رُو ہی سے مقرر کِیا جانا شریعت وطریقت کی طرف سے مصدقہ ہوتا ہے۔ شریعت، طریقت، حقیقت، معرفت اِس پر گواہ ہوتے ہیں۔ 

فرض عبادت” نماز“ دِن میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے، روزانہ، باقاعدگی سے اور پابندیِ اوقات کا خیال رکھتے ہوئے، نظام الاوقات کے لیے باقاعدہ کیلنڈرز اور چارٹ شایع ہوتے ہیں اور اُن میں جن کا تعلُّق روزانہ کے معمول سے ہوتا ہے اجرامِ فلکی کی مناسبت سے وقت میں کمی بیشی سے نمازی مطلع رکھے جاتے ہیں، فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں مقررہ اوقات میں سورج طلوع ہونے سے پہلے، زوال کے بعد دوپہر میں، سہ پہر، غروبِ آفتاب کے بعد اور رات کو ادا کی جاتی ہیں۔ اور یہ بتانے کے لیے کہ وقت ہو گیا، نمازی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مسجد تشریف لے آئیں، بلاوا یعنی اذان دی جاتی ہے کہ نماز کے لیے آﺅ.... آﺅ فلاح کی خاطر۔ یہ پُکار شہر میں موجود ہر مسجد کے میناروں سے بُلند ہوتی ہے جو مُسلم مُعاشرت کو ثقافتی طور پر ایک علیحدہ آہنگ عطا کرتی ہے۔ 

باجماعت نماز کے قیام کو ترجیح حاصل ہے، جس کے لیے آئیڈیل مقامِ عبادت مسجد ہے، امام کے پیچھے صف بندی کر لی جاتی ہے جو نظم وضبط وتربیت پر خاص توجُّہ دیتا ہے۔ نماز اکیلے بھی پڑھی جا سکتی ہے اور خُدا کی زمین پر کہِیں بھی، جہاں مسجد نہِیں کم یا زیادہ تعداد میں مقتدی موجود ہیں تو جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اِن لوگوں میں دِین سے زیادہ واقف ہے یا بزُرگ ہے، پابندِ شرع ہے، امامت کے فرائض ادا کرنے کی مذہب اُسے اجازت دیتا ہے کہ نماز پڑھا دے۔ صف جہاں بچھے، گھاس ہو یا زمین بس جو بھی جگہ ہو شرع کے لحاظ سے بس پاک صاف ضرور ہو۔ تمام نمازیوں کا مُنہ خانہءکعبہ کی طرف ہو گا۔ کوشش کی جاتی ہے کہ قبلے رُخ کا تعین صحیح ہو، مکہ معظمہ کی طرف، اگر مسافر ہیں نہِیں پتا چل سکا تو خدا ہر طرف موجود ہے اپنے اندازے سے کِسی بھی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ مسجد میں تو محراب دیکھ کر قبلہ رُو ہونے کی منزل آسان ہو جاتی ہے، امام کے لیے بنایا گیا جوف ہمیشہ قبلہ رُخ تعمیر کِیا جاتا ہے۔ سارے جہان میں نماز پڑھتے ہوئے کعبة اللہ کی طرف مُنہ کرنا عالمی اِتّحاد الاسلامی کا مظہر ہے۔ نماز پڑھنے کے لیے طہارت لازمی ہے، سب سے پہلے وضو کِیا جاتا ہے، جہاں پانی مُیسّر نہ ہو تو تیمّم کی اجازت ہے۔ اسلام دِینِ فطرت ہے، صفائی اسلام میں نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ پورے جسم کی صفائی کے لیے عام غسل اور غسلِ جنابت جو مُکمّل تطہیر کے لیے ہوتا ہے دونوں، اِن کے لیے بھی چند قواعد، چند اُصُول مقرر ہیں جس طرح وضو کرتے ہوئے چند ارکان دھونے صاف کرنے کے لیے مقرر ہیں، فقہی مسائل ہیں جو اِن میں امتیاز قائم رکھتے ہیں۔ صاف سُتھرا لباس پہننا بھی پسندیدہ عمل ہے۔ یہ سب تو ظاہری صفائی ہے مگر اسلام باطنی یعنی اندر کی صفائی پر بھی ترجیحاً بہُت زور دیتا ہے، دِلوں میں کوئی کدورت، منافرت ہرگز نہِیں ہونی چاہیے۔ اسلامی ضوابط کا اِن اُصُولوں کے ساتھ موازنہ، جو عہد نامہءقدیم میں مذکور ہیں، مفیدِ مطلب ہو گا: ۔

اور خُداوند نے حضرت موسیٰ سے کلام کر کے فرمایا کہ تو وضو کے لیے ایک حوض پیتل کا اور اُس کی چوکی پیتل کی بنا۔ اور اُس کو حُضُوری کے خیمہ اور مذبح کے مابین رکھ اور اُس میں پانی ڈال۔ تو ہارون اور اُس کے بیٹے اُس سے اپنے ہاتھ اور اپنے پانو دھوئیں۔ جب وہ حُضُوری کے خیمہ میں داخل ہوں تو پانی سے وضو کریں تاکہ ہلاک نہ ہوں اور جب وہ مذبح کے نزدیک خدمت کرنے کے لیے آئیں اور آتشین قربانی خُداوند کے لیے جلائیں تو اپنے ہاتھ اور اپنے پاﺅں دھوئیں تاکہ ہلاک نہ ہوں اور یہ اُن کے لیے اور اُن کی نسل کے لیے پُشت در پُشت ابدی فرض ہو گا۔ 

اور خُداوند نے حضرت موسیٰ سے کلام کر کے فرمایا کہ تُو اپنے واسطے عمدہ مصالح جات لے۔ خالص مُرپانچ سو مثقال اور اُس کا آدھا اڑھائی سو مثقال عمدہ دار چینی اور عود اڑھائی سو مثقال اور تج پانچ سو مثقات مقدّس کے مثقال سے اور زیتون کے تیل سے ایک ہیں۔ اور تُواِن سے مسح کرنے کا تیل عمدہ خوشبودار عطار کی کاریگری کے موافق بنا۔ یہ تو مُقدّس مسح کا تیل ہو گا۔ اور اِس سے حضوری کے خیمہ اور صندوقِ شہادت کو مسح کر اور میز کو بہ مع اُس کے برتنوں کے اور شمعدان کو بہ مع اُس کے برتنوں کے اور بخُور کی قربان گاہ کو، اور سوختنی قربانی کے مذبح کو مع اُس کے سب سامان کے، اور حوض کو اور اس کی گھڑونچی کو، اور تُواُن کو پاک کر تووہ نہایت مُقدّس ہو جائیں گے۔ جو کوئی اِن کو چھُوئے گا، پاک ہو جائے گا۔ اور ہارون اور اُس کے بیٹوں کو مسح کر، اوراُن کو مُقدّس کر، تاکہ وہ میرے لیے کہانت کا کام کریں۔ 

(خروج 17:30تا 30)  

اور جو کوئی شخص خُود بخُود مرے ہوئے یا درندہ کے پھاڑے ہوئے جاندار کو کھائے، خواہ دیسی ہو خواہ پردیسی، وہ اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور شام تک ناپاک رہے، تب وہ پاک ہو گا۔ اگر نہ دھوئے اور نہ غسل کرے تو گُناہ اُس کے سر پر ہو گا۔ 

(احبار 15:17)  

تم اِن باتوں میں سے کسی سے اپنے آپ کو نجس نہ کرو کیوںکہ ایسی ہی باتوں سے وہ قومیں نجس ہوئیں جن کو مَیں تمھارے آگے سے نکال دُوں گا۔ اور زمین ناپاک ہوئی۔ سو مَیں اُس کی بَدی کی سزا دوں گا۔ اور زمین اپنے رہنے والوں کی قَے کر دے گی۔ پس تم میرے قوانین اور میری قضاﺅں پر عمل کرو اور اِن گھناﺅنی باتوں میں سے تم خواہ دیسی خواہ پردیسی جو تمھارے درمیان ہے، کوئی نہ کرو۔ کیوںکہ یہ سب پلید کام زمین کے باشندوں نے جو تم سے آگے تھے، کیے اور زمین ناپاک ہوئی۔ تاکہ جب تم زمین کو ناپاک کرو تو وہ تمھیں قَے نہ کر دے جیسا کہ تم سے پہلے کی قوموں کو اُس نے قَے کر دِیا۔ کیوںکہ اِن پلیدگیوں میں سے جو کوئی کچھ کرے گا تو سب کرنے والے اشخاص اپنے لوگوں میں سے خارج کیے جائیں گے۔ 

پس میرے حکموں پر عمل کرو تاکہ تم ان پلید کاموں میں سے جو تم سے پہلے کیے گئے کوئی نہ کرو اور اپنے آپ کو اُن سے گندہ نہ کرو، مَیں خُداوند تمھارا خُدا ہُوں۔ 

(30-24:18احبار)

جب تُو خیمہ گاہ میں اپنے دُشمنوں پر خروج کرنے کو ہو تو ہر ایک بُری چیز سے بچا رہ۔ اگر تمھارے درمیان کوئی ایسا مرد ہو جو رات کے خواب کے سبب سے ناپاک ہو تو وہ خیمہ گاہ سے باہر نکل جائے۔ اور خیمہ گاہ میں نہ آئے۔ پر جب شام ہونے لگے تو وہ پانی سے غسل کرے۔ اور سورج ڈوبنے کے بعد خیمہ گاہ کے اندر آئے۔ اور خیمہ گاہ سے باہر تمھارے لیے ایک جگہ ہو گی جہاں تم رفع حاجت کے لیے جاﺅ۔ تیرے کمر بند میں تیرے پاس ایک کھُرپی ہو کہ جب تو باہر جا کے بیٹھے تو اُس سے کھود اور جو تجھ سے خارج ہُوا ہو اُس کو چِھپا۔ کیوںکہ خُداوند تیرا خُدا تیری خیمہ گاہ کے درمیان پھرتا ہے تاکہ تجھے چھڑائے اور تیرے دشمنوں کو تیرے حوالے کرے۔ سو تیری خیمہ گاہ پاک رہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اُس میں کوئی ناپاکی دیکھے اور تیرے پاس سے چلا جائے۔ 

(14-9:23تثنیہ شرع)

وضو کرنے کے بعد عبادت گزار نماز پڑھنے کی نیت کرتا ہے (اِس کے بھی مخصوص الفاظ ہیں) تکبیر کہی جاتی ہے، امام کے تکبیرِ اولیٰ کہتے ہی بندہ نماز میں آ جاتا ہے۔ اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے، ثنا، اُس کے بعد تعوذ، تسمیہ اور پھر قرآن پاک کی پہلی پہلی سورة، سورة فاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے: ۔

(شروع خُدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے) 

 سب تعریفیں، تمام جہانوں کے پالنے والے،اﷲکے لیے ہیں۔ جو مہربانی والا اور رحمت والا ہے۔ فیصلے کے دن کا مالک ہے۔ اے اﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم کو سیدھے رستے پرچلا۔ یعنی ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا، جن پر تیری بخشش اُتری۔ اور اُن کے رستے پر نہ چلا جن پر تو غُصّہ اُتارتا رہا اور نہ ہی ان کے راستے پر چلا جوگُم راہ ہو گئے۔

(القرآن،سورة فاتحہ:1-7)  

فرض نماز، سُنّت، نفل یا وتر ہوں اُن میں سے 2سے4تک ہی رکعت ہوتی ہیں، جو وقوف، رکوع، سجدے اور جلسہ میں ادا ہوتے ہیں اور ایسے ہر رُکن کے لیے مختلف دُعائیں، دُرود اور آیات پڑھی جاتی ہیں۔ نمازِ فجر کے فرض 2ہیں، مغرب کے 3، ظہر، عصر اور عشا نماز کے چار چار یعنی 4رکعت نماز فرض۔ نماز میں قرآن پاک کی چھوٹی صورتیں ہی عموماً قرات کی جاتی ہیں، جلسہ میں جب نمازی بیٹھے ہوتے ہیں تو التحیات، تشہد، درُود پاک اور اپنے اور سب کے لیے کوئی بھی قرآنی دُعا اور پھر سلام پھیرا جاتا ہے۔ فرض رکعتیں ادا کرتے ہوئے 5سے 10مِنٹ صَرف ہوتے ہیں، بشرطے کہ کوئی لمبی سورة یا آیات ودُعائیں ترجیح نہ پا جائیں۔ ہر ہفتے بروز جمعہ ظہر کی نماز صلوٰة الجمعہ قرار پاتی ہے۔ نماز جمعہ کے فرض دو ہوتے ہیں، نمازی کثیر تعداد میں دُور دُور سے آتے ہیں، اِس اجتماعی نماز کے شروع ہونے سے پہلے وعظ، پھر دوسری اذان جمعہ اور پھر خطبہ پڑھا جاتا ہے، یہ سنت امام بھی ادا کرتے ہیں اور واعظ اور خطیب بھی۔ رمضان المبارک کے روزے شوال کا چاند نظر آجانے پر ختم ہو جاتے ہیں اور اگلی صبح عیدالفطر کی خصوصی نماز ادا کی جاتی ہے، اِسی طرح دوسرا بہت بڑا مذہبی تہوار عیدالاضحی کا ہے، قربانی سے پہلے اب بھی سپیشل طور عید کی نماز ادا کی جاتی ہے، دونوں نمازیں شکرانہ ہیں، اللہ کے حضور، اِسی طرح مسلمانوں کے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت بھی عیدین کی طرح بطور عیدِ میلاد النبی منایا جاتا ہے، حمد ونعت کی محفلیں سجتی ہیں اور شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے ہیں۔ آخری عشرہ رمضان المبارک میں طاق راتوں کو عبادات سے سجایا جاتا ہے، عمرہ اور حج کے لیے بھی مخصوص عبادات ہیں جن کا اپنا ایک الگ ہی تشخص وتقدُّس ہے۔ 

صلوٰة.... نماز اہم ترین اطاعت.... بندگی کا عمل ہے، خُداے واحد کی حمد اور شکرانہ خُداوندی کے لیے، احکاماتِ ربّانی کی بجاآوری اِس عبادت کا خاصہ ہے۔ دینی وروحانی علوم کے ماہر امام محمد الغزالی (پیدایش 1058ع.... وفات 1111ع) اُنھوں نے مندرجہ ذیل اوصاف کو نماز کے لیے لازمی قرار دِیا: ۔

تطہیرِ قلب، اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع وخضوع، تقویٰ منکسرانہ خوفِ خُدا وپرہیزگاری، آس، اُمِّید، اللہ جل شانہ، پر مُکمّل بھروسا، عاجزی اور اصلاحِ نفس کی ایماندارانہ خواہش وسعی۔ 

مختلف سانحات، قدرتی آفات اور خاص مواقع کے لیے بھی مخصوص عبادتیں مسلم معاشرت میں رائج ہیں، مثلاً نمازِ استسقا (بارش کے لیے دُعا مانگی جاتی ہے)، صلوٰةِ قنوت (جنگ کے مصائب سے بچنے اور دُشمن پر فتح پانے کے لیے) صلوٰة الحاجات، مصیبت وادبار کے لمحوں میں قرآن پاک کی بعض سورتوں کی تلاوت، وظائف، اِسی طرح نمازِ جنازہ، تراویح، نوافل، صلوٰة الیل اور تہجد:۔ 

اور بعض حصہ شب میں بیدار ہو کر تہجد کی نماز پڑھا کرو۔ یہ (شب خیزی) تمھارے لیے (عبادتِ) زائد ہے۔ قریب ہے کہ خُدا تم کو مقامِ محمود میں داخل کرے۔ 

(القرآن، بنی اسرائیل: 17)  

۲۔دیگر عبادات 

کثرتِ یادِ الٰہی کے لیے اہلِ طریقت، صوفیہ کرام نے ”ذکر“ کی راہ اپنا رکھی ہے اور اِس میں وہ بہُت دور تک نکل گئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اسماءالحسنیٰ کا وِرد کرتے کرتے اک گونہ بے خودی سی طاری ہو جاتی ہے اُن پر.... اور عالمِ وارفتگی میں.... تُو مَن شُدی مَن تُو شُدم.... کی منزل کو چھُو لیتے ہیں: ۔

سو تم مجھے یاد کِیا کرو مَیں تمھیں یاد کِیا کروں گا، اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔ 

(القرآن،البقرة: 152) 

زِکریا نے کہا، اے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما۔ خُدا نے فرمایا، نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین دِن اشارے کے سوا بات نہ کر سکو گے تو (اُن دِنوں میں) اپنے پروردگار کی کثرت سے یاد اور صبح وشام اُس کی تسبیح کرنا۔ 

(القرآن، آلِ عمران: 41)  

اللہ ہُو، اللہ ہُو، اللہ ہُو، اِس طرح مسلسل اللہ پاک کے نام کی دُہرائی سے، حلقہ میں یا تنِ تنہا، یادِ خُداوندی سے دِل ودماغ جب معمور ہو جاتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے صوفی جذب وکیف کی مستی میں سرشار ہو کر حق میں ڈوب جاتا ہے۔ ذِکر کے تین درجے ہوتے ہیں، پہلا درجہ لسانی ہے، دوسرا قلبی (اُس میں قلب جاری ہو جاتا ہے) اور تیسرا درجہ سِرّی ذِکر ہے، اُس میں ذاکر پر وجد سا طاری ہوتا ہے، باری تعالیٰ کے نام کے ورد، ذِکر، فِکر کے زیرِاثر جسم تو جسم روح تک تھرتھرا رہی ہوتی ہے۔ صوفیہ اور اُن کے معتقدین کے ہاں باقاعدگی سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف یکسوئی کا تار سا باندھ لیتے ہیں، فِکرِ مولا میں ڈوب جاتے ہیں، خاموش عبادت کہ سیکڑوں کے حلقہ میں بس سانسوں کی آواز ایک ردھم سا پیدا کر رہی ہوتی ہے، سماں بندھ جاتا ہے۔ حمد ونعت کی مجلس اور قوالیاں بھی اُن کی عبادت کا محبوب وسیلہ ہیں۔ 

علیٰ ہٰذا القیاس، متن آیات کے اعتبار سے اور مذہبی رُسُوم وسُنّت کے مطابق اِس طرح کی عبادات میں ٹھیک طرح سے بل کہ سختی سے ترتیب، ضوابط اور نظم کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ آیاتِ مُقدّسہ کا انتخاب بسا اوقات وجد اور رِقّت طاری کر دینے والا ہوتا ہے، اقدامِ شخصی کی تو اِن عبادات میں کہِیں کوئی گنجایش ہی نہِیں رہتی۔ شیخ کی رہنُمائی میں ہی مرید نے عبادت کے اِن رموز سے پوری احتیاط، تسلسل اور پابندی کے ساتھ گذرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بہُت ہی پیارے 99 ناموں کا ورد، سبحان اللہ: ۔

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہِیں، بہترین نام اُسی کے ہیں۔ 

(القرآن،طٰہٰ: 8)   

اللہ تعالیٰ کے اسماءالحسنیٰ کا وِرد کامل یکسوئی کے ساتھ کِیا جاتا ہے، مومنین تسبیح کے ذریعے اُن کا شمار کرتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔ 

یہ بھی بڑی وقیع بات ہے کہ مختلف سیاق وسباق میں فِکر وپریشانی کے حالات نے جب گھیرا ہوتا ہے تو مسلمان قرآنی آیاتِ مُقدّسہ کے وسیلہ سے ہی اللہ کریم سے حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں اور اُنہی کی تلاوت سے اُن کی دِلجوئی ہوتی ہے۔ 

اور اَن گنت دُعائیں ہیں جو فوری مانگ لی جاتی ہیں، بہُت سے وظائف ہیں جو سریع القبولیت سمجھے جاتے ہیں جو عام مسلمانوں کے روز مرّہ کا حصہ ہیں اور اِن وظیفوں اور اِن دُعاﺅں یا تاثرات کو موقعِ محلّ کی مناسبت سے زُبانی ادا کرتے ہیں: جیسے الحمد اللہ۔ یہ حمد بھی ہے اور شکرانہ بھی، حیرت، خوشی، نظرِبددُور کے طور پر فوراً مُنہ سے نکلتا ہے ماشااللہ.... اللہ کی مرضی، جو اللہ کی رضا۔ اِسی طرح مغفرت ومُعافی کے لیے، توبہ کرنے کو کہا جاتا ہے استغفراللہ، صحت وتندرستی کے لیے اللہ شافی، اللہ کافی (وہی شفا دینے والا ہے اور وہی کافی ہے) ناپسندیدگی، اظہارِ نفرت وملامت کے لیے لاحول ولاقوة پڑھا جاتا ہے جس کے معانی ہیں.... ”اور گُناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قُوّت نہِیں مگر اللہ کی مدد سے، جو بہُت بُلند، عظمت والا ہے۔

بسا اوقات مسلم علماے دِین گرما گرم بحثوں میں اُلجھ پڑتے ہیں، اِس مسئلہ پر کہ آیا التجائیہ ودُعائیہ عبادات کو شریعت کا لائسنس حاصل ہے، یا نہِیں۔ عمائدینِ دِین کو یہ بھی کھوج لگی ہوتی ہے کہ اگر یہ عبادات شرع نے جائز قرار دی ہیں تو پھر دوسری عبادات کے مدِّمقابل اِن کو کیا مقام حاصل ہے؟ بات وہی ہے کہ سب کچھ ربِ اکبر کے عِلم میں ہے، کوئی دُعا اُس کی مرضی کے خلاف اُس سے کچھ بھی منوا لینے سے قاصر ہے۔ اُس نے مخلوقات کے لیے جو مقرر کر دِیا، بس کر دِیا۔ اُس کی منشا کے خلاف کچھ بھی تبدیل نہِیں ہو سکتا۔ وہی ہے جو قادرِ مطلق ہے۔ تاہم مُسلم اُمّہ میں اِس بات پر اتفاق ہے کہ دُعا اللہ رحیم وکریم کو محبوب ہے، اِس لیے اِس مجیب الدعوات سے دُعا مانگتے ہی رہنا چاہیے، انکسار سے، گِڑگِڑا کر، مِنت وزاری کے ساتھ، خُداوند کریم نے ہی تو اپنے مومن بندوں کو حکم دِیا ہے کہ اُس سے دُعا مانگیں وہ سُنتا ہے: ۔

اور (اے پیغمبر!) جب تم سے میرے بندے میرے متعلق میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) مَیں تو (تمھارے) پاس ہُوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی دُعا قبول کرتا ہُوں تو اُن کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ نیک رستہ پائیں۔ (یہی اُن کی بھلائی کا باعث ہے)۔ 

(القرآن،البقرة: 186)  

اور تمھارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دُعا کرو، مَیں تمھاری (دُعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ عبادت سے ازراہِ تکبُّر کتراتے ہیں، عنقریب جہنّم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔ 

(القرآن،غافر: 40)  

اسلامی مقبول ترین تعلیمات میں ہے کہ خُداوند قُدُّوس عالمِ بالا سے ہی اپنے عِلمِ غیب سے دیکھ رہا ہے اور اپنے غیر مشروط، بے پایاں فضل وکرم سے، اپنی ربانی لامحدود جُود وسخا سے دُعاﺅں کو قبولیت بخشتا ہے۔ عقلیت پسندی کے رُجحان کے تحت معتزلّہ والوں کی رائے تھی کہ ملتجی ہونے سے اللہ کے حضور دُعا مانگنے سے کوئی ایسا خاص فرق تو نہِیں پڑتا۔ پھر بھی ایک اور طرح کا فائدہ ضرور سامنے آتا ہے کہ اپنی عاجزی کی بنا پر اللہ جل شانہ، کے ساتھ اپنے رویّے میں ایک قرینہ، ایک سلیقہ بندہ ضرور سیکھ لیتا ہے اور وہ رویّہ ہوتا ہے بندہ_¿ غریب ومسکین ومحتاج والا۔ منکسرانہ، عاجزی میں ڈوبی ہوئی دُعائیں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو تو کیا بدلیں گی، بندے کے اپنے اندر بڑی تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ تب یوں ہوتا ہے کہ.... 

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے 

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے 

۳۔دُعا اور اعمال 

مستجاب وقبولیت والی مستند دُعا کا تو پتا اِسی سے چل جاتا ہے کہ دُعاگو اپنے ہمسایوں سے کیا سُلُوک روا رکھتا ہے۔ بارگاہِ خُداوندی میں وہی لوگ مقبول ہیں اور مستجاب الدعا ہیں جو نیک، متقی وپارسا ہیں اور دوسروں کی بھلائی چاہنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں:۔

ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف (اُسے قبلہ سمجھ کر) مُنہ کرنے میں ہی نہِیں بل کہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دِن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کرے)۔ نماز کی پابندی اور زکوٰة کی ادائی کرے، جب وعدے کرے تب اُنھیں پورا کرے۔ تنگدستی، دُکھ، درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ 

  (القرآن،البقرة: 177)

۳۔مسیحی نقطہءنظر 

عبادت کا مقصدِ اعلیٰ خُداوند کی طرف رجوع کرنا ہے، اُسی کے ہو کر رہ جانا ہے، کیوںکہ اُس نے بھی تو بنی نوع انسان کا ہو جانا قبول کر کے انسانیت پر احسان کِیا ہے۔ یہ جو ہے نا!خُدا سے لَو لگانے کا عمل، اِس کے اظہار کے مختلف اور بہُت سے پیرایے ہیں۔ جیسے زُبانی دُعا، گیان دھیان، اذیتِ مسیح سے مُتعلّق کلیسائی موسیقی، مذہبی تصاویر، جسمانی حرکات وسکنات، خاص مواقع پر رقص، فنونِ لطیفہ، وہ تصویر یا صلیب جسے الطار کے پیچھے پردے یا دیوار پر عقیدت وسجاوٹ کے طور پر آویزاں کِیا گیا ہو، روحانی شبیہات، مذہبی مجسمے اور تصاویر جن کی مشرقی کلیساﺅں کی مذہبی رسومات میں تعظیم وتکریم کی جاتی ہے، کلیساﺅں کی کھڑکیوں کے مخصوص رنگدار شیشے اور روحانی مجسمے، بے شک وہ سب سامان بھی جسے حسِّ لطیف اور اعلیٰ ذوق کا استحسان حاصل ہو، لوبان اور اگر بتیوں کی خوشبو جسے ابتدائی کلیسائی معتقدات میں بیان شدہ مسیحی دِن کے مطابق اور کیتھولک گرجاﺅں میں خصوصی طور پسند کِیا جاتا رہا ہے، اِسی طرح گرجا گھروں کی خاص ترتیب وتزئین وغیرہ سب اِسی زمرہ میں آتے ہیں۔ جب یوں عبادت کا ایک ماحول سا سیٹ ہو جائے تو ساری اہمیت اُس عبادت کے لیے مختص ہو جاتی ہے جس کے الفاظ خواہ اُونچی آواز میں ادا ہوں یا دھیمی صداﺅں کے مرہونِ مِنّت ہوں یا پھر بہ باطن یعنی دِل ہی دِل میں یعنی دِل سے خاص ادا کیے جا رہے ہوں۔ 

مسیحی عبادت کا سرچشمہ خُداوند حضرت یسوع مسیح کی عبادت گُزارانہ زِندگی سے پھُوٹتا ہے، جس کا منبع یہودیت اور خُداوند کے عبادت کے بارے میں فرمودات میں موجود ہے جو مسیحیت ہے۔ 

۱۔خُداوند حضرت یسوع مسیح نے خُود بھی عبادت کی اور کر کے ہمیں سِکھائی 

مُقدّس اناجیل میں خُداوند حضرت یسوع مسیح کا جب بھی ذِکر آیا ہے عبادت گُزار کے طور پر ہی اکثر مذکور ہُوا ہے۔ خُداوند کو اکیلے میں اپنے خُدا باپ کی عبادت کرنا مرغوب تھا۔ رات رات بھر عبادت ودُعا میں گُزار دی، تب تو ضرور ہی جب کوئی بڑا فیصلہ لینے کی گھڑی سر پر ہوتی تھی یا جب زِندگی کے اہم اور نازک موڑوں کا سامنا ہوتا تھا۔ مثلاً علانیہ طور پر خدمتِ عوام کے آغاز میں تو خُداوند حضرت یسوع مسیح نے روزہ وعبادت کے لیے صحراﺅں کا رُخ کر لیا، اپنے مصائب وآلام اور وقتِ انفعال مُکمّل تنہائی میں یکسوئی کے ساتھ دُعا وعبادت کو اپنایا۔ خُدا باپ میں توحید کے اقرار کے ساتھ وہ جیا اور منشاے ایزدی سے ایک ہونے میں اپنی رضا جانی۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح کی عابدانہ زِندگی کی جڑیں یہودیت میں پیوست تھیں اور صحائفِ مُقدّسہ کی پیروکاری میں پختہ تر تھیں۔ براہِ راست اُس نے مزامیر سے حوالے دیے جو مُقدّس صحائف کی دُعائیہ کتاب ہے اور کبھی یوں بھی ہُوا کہ اُس کی آیات کو نئی بُنّت دے کر آزادی سے پیش کر دِیا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو عبادت کے رُمُوز سکھائے، پرائیویٹ (ذاتی، نجی) دُعا وعبادت گنجھلدار نہ ہو، آراستگی پیراستگی کے خمیر میں گندھی نہ ہو، سیدھی اور سادہ ہونی چاہیے، خالی خولی الفاظ سے پاک رکھی جائے نہ ہی خواہ مخواہ جُملوں کی بھرمار سے بوجھل ہو: ۔

اور جب تم دُعا کرو تو ریاکاروں کے مانند نہ ہونا، کیوںکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اُنھیں دیکھیں، مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے، لیکن جب تُو دعا کرے تو اپنی کوٹھڑی میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے پوشیدگی میں دُعا کر اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے، تجھے بدلا دے گا۔ اور جب تم دُعا کرتے ہو، تو غیر قوموں کے لوگوں کے مانند بک بک نہ کرو کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زیادہ گوئی سے ہماری سُنی جائے گی۔ 

(مُقدّس متّی 7,6,5,:6) 

اپنے شاگردوں کی ایک غیر مبہم، واضح درخواست پر خُداوند حضرت یسوع مسیح نے اُنھیں وہ دُعائیہ کلمات سکھائے جو.... اے ہمارے باپ.... کے الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔ مُقدّس باپ کا تخاطب یُوں دِیا کہ خُدا ہمیں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتا ہے۔ ”ہمارے“ کا لفظ اِس لیے دِیا کہ مسیحیت میں ہر دُعا، چاہے پرائیویٹ سی، خاص ذاتی ہی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دوسروں کی شراکت ورفاقت میں ہی مانگی جاتی ہے۔ یہ جو ”اے ہمارے باپ ....“ والی دُعا ہے، اس میں تین التجائیں ہیں خُدا کے حضور اور تین استدعائیں ہیں جو گذرانی گئی ہیں، انسانی سطح پراسے دعاے ربانی کہتے ہیں جو یہ ہے:۔

یہ وہی بات ہے کہ بالکل اِس طرح جس طرح خُدا مُعاف فرماتا ہے۔ 

پس تم اِس طرح دُعا کِیا کرو کہ 

اے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے 

تیرا نام پاک مانا جائے 

تیری بادشاہی آئے، تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے 

زمین پر بھی ہو 

ہمارے روزینہ کی روٹی آج ہمیں دے 

اور جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو بخشتے ہیں تو ہمارے قرض ہمیں بخش 

اور ہمیں آزمایش میں نہ پڑنے دے بل کہ ہمیں بُرائی سے چھُڑا 

کیوںکہ اگر تم آدمیوں کو اُن کے قصور بخشو گے تو تمھارا آسمانی باپ تمھیں بھی بخشے گا۔ لیکن اگر تم آدمیوں کو نہ بخشو گے تو تمھارا باپ تمھارے قصور تمھیں نہ بخشے گا۔ 

15-9:6مُقدّس متّی)

اذیتوں میں سے گذرنے سے پہلے پہلے، خُداوند حضرت یسوع مسیح نے آخری دعوتِ طعام کا اہتمام باندھا، اُس آخری کھانے کی یاد میں ایسٹر کے بعد خُداوند حضرت یسوع مسیح کے آخری کھانے والی رِیت پڑی جو اقدس یوخرست، عشاے ربّانی بھی کہلائی، یہ بھی ایک مُقدّس دینی علامت ہے جو خُداوند حضرت یسوع مسیح کے مُقدّس ذاتی ایثار پر مبنی ہے کہ اُس نے خُدا باپ کے سامنے اپنے آپ کو دُنیا کے لیے نجات طلبی کے بدلے میں قربانی کے لیے پیش کر دِیا، اور اپنے بندوں میں موجود رہنے کا وعدہ پورا کر دِیا۔ بھلے اُس کا وُجُود محسوس ہو یا نہ ہو، وہ نظر آئے یا نظر نہ آئے مگر مسیح خُداوند جو مُردوں میں سے اُٹھایا گیا، ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہمیشہ، ہر جگہ، پس مسیحی دُعا بھی اور عبادت بھی جسے حضرت یسوع مسیح نے مربوط کِیا اور اپنے ماننے والوں کو سکھا بھی دی.... یہ خُدا باپ کی تمجید کرنا، تعریف وتوصیف بیان کرنا، شکر شکرانہ ادا کرنا، احسان مندی ظاہر کرنا، اپنا آپ حوالے کرنا، خدا کی بندگی، توبہ تائب کرنا، مدد طلب کرنا، توکّل کرنا اور اُس پر کامل بھروسا کرنا، نہِیں تو اور کیا ہے؟ 

دُعا بجاے خُود ایک عبادت ہے، مگر اسلامی دُعا وعبادت میں اور ہم مسیحیوں کی عبادت ودُعا میں چندے فرق ہے جو مقررہ طرز وآدابِ عبادت یعنی لطوریائی اورنجی میں ہم مسیحی روا رکھتے ہیں۔ ذاتی عبادت ودُعا کو ہمارے ہاں ایک خاص درجہ حاصل ہے اور اِسے خواتین وحضرات دونوں بُلند مرتبہ واہمیت دیتے ہیں۔ ابتدائی کلیسائی مروجہ عقائد ماننے والے ہوں یا کیتھولک مسیحی، یہ بات البتہ اِن میں ضرور موجود ہے کہ تقریبِ عشاے ربّانی کی سربراہی کے لیے فقط مرد ہی منتخب ہوتے چلے آئے ہیں۔ آج بھی یہ تخصیص مردوں کا ہی مُقدّر ہے۔ 

۲۔لطوریائی دُعا وعبادت 

لطوریائی عبادت پاک یوخرست یا عشاے ربّانی میں شریک ہونے کی اجتماعی عبادت ہے جس میں ارکانِ عبادت ومسیحی رسوم مقرر شُدہ ہوتے ہیں اور بائبل مُقدّس کے اصل متن کے مطابق تلاوت کی جاتی ہے۔ یوخرستی قربانی (کیتھولک مسیحی اسے ہولی ماس کے نام سے موسوم کرتے ہیں) اِس اقدس عبادت کو مسیحی زِندگی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کیتھولک چرچ میں پریسٹ ہی ہمیشہ پاک یوخرست کا مہتمم ہوتا ہے، اور اِس کا اہتمام روزانہ ہو سکتا ہے اور جب بھی کوئی وقت مقرر کر لیا جائے تبھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اتوار کے دِن تو انتہائی تقدُّس، سنجیدگی، پوری عقیدت اور بھرپور طریقے سے مُقدّس یوخرست کی عبادت ادا ہوتی ہے، کیوںکہ اُس روز تمام مسیحی بطورِ خاص زِندہ خُداوند کو دِل ودماغ میں بسائے ہوتے ہیں۔ کیتھولک مسیحی گرجاﺅں میں اتوار کے لیے مقررہ طرزِ عبادت سے ہفتہ (سنیچروار) کی شام میں بھی عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ 

پاک یوخرست کا آغاز کلیسائی عہدیدار پاک کلام سے کرتا ہے۔ جیسے مُقدّس بائبل کی تلاوت بشمول چاروں اناجیلِ مُقدّسہ میں سے کسی ایک انجیلِ مُقدّس کا کوئی حصہ اور پھر اُس کے بعد وعظ یا انجیلی خطاب اور پھر شفاعتی مناجات، اِن کے بعد روٹی اور عشاے ربّانی میں استعمال ہونے والی مَے کی تقدیس کی جاتی ہے۔ اُن الفاظ کی تلاوت ہوتی ہے جو عشاے ربّانی کے دوران خُداوند حضرت یسوع مسیح نے دِی لاسٹ سپّر (آخری کھانے) کے موقع پر ادا کیے تھے۔ اور پھر خُداوند کی دُعا.... اے ہمارے باپ اور اُس کے بعد پاک شراکت عطا کی جاتی ہے اور یوں راسخ مسیحی، روٹی اور مَے.... پاک اجزا کی صُورت میں، خُود خُداوند حضرت یسوع مسیح کو پا لینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ 

احساناتِ خُداوندی کے تشکُّر کے لیے پاک یوخرست ہی عظیم عبادت ہے۔ (یونانی زُبان میں یوخرست کا مطلب ہی شکر گُزاری ہے) یہ تمجیدِ خُداوندی اور اُس کی تقدیس کی اقدس اجتماعی مسیحی عبادت ہے، یہ تو حُکمِ ربّانی میں شامل کر لیے جانے والی عبادت ہے اور خُداوند حضرت یسوع مسیح کی غلامی میں بندھ جانے، رچ بس جانے والی برکت ہے جو اِس عبادت سے نصیب ہوتی ہے کیوںکہ خُداوند حضرت یسوع مسیح سچ مچ ہی مُقدّس عشاے ربّانی.... روٹی اور مَے میں سما چکا ہوتا ہے.... پاک بدن، مُقدّس خُون.... تو پھر کیوں نہ مسیحیت پر ایمان لانے والوں میں زیست کی آزمایشوں اور آلایشوں سے مردانہ وار نمٹنے کا حوصلہ اور برداشت پیدا ہو۔ 

روایتی راہبانہ طرز پر کلیسیائی عبادت کی پہلی، تیسری، چھٹی اور نویں گھڑی یعنی سات مقررہ ساعات کے مطابق لطوریائی عبادت طبقہ رُہبانیت اور کاہنوں کے لیے بہُت اہمیت کی حامل ہے، لیکن عام مسیحیوں میں زیادہ مقبول نہِیں۔ عام دینداروں کا نہِیں یہ خواص کا خاصہ ہے مگر عام لوگوں پر پابندی بھی نہِیں۔ دراصل ایک دُعائیہ سِلسلہ ہے۔ اِس میں کلامِ مُقدّس کی تلاوت کی جاتی ہے اور آباے کلیسیا کے فرمودات بھی دُہرائے جاتے ہیں، مزامیرِ اقدس ادا ہوتی ہیں، مذہبی گیت گائے جاتے ہیں، ٹکڑے سے ٹکڑا جوڑا جاتا ہے (جوابی گیت) اور پھر التجائیہ مناجات پڑھی جاتی ہیں۔ راہبانہ طبقات میں یہ سب کچھ روزانہ سات مرتبہ ادا کِیا جاتا ہے۔ اکیلے ہوں تو تحت اللفظ ورنہ مِل کر گاتے ہیں صبح صبح، دوپہر کے وقت، شام کے سمے اور رات کو بھی، پروٹسٹنٹ گرجاﺅں میں بھی عبادت کو مرکزی حیثیت ومقام حاصل ہے۔ 

کیتھولک مسیحیوں کے عقیدہ کے مطابق ساکرامنٹ میں جو مُقدّس رُسُوم شامل ہوتی ہیں، اُن میں پیش پیش استحکام کی رسم کی ادائی ہے، کفارے کے طور پر ریاضت میں شامل ہے، شادی بیاہ، کاہنانہ تقرر (کلیسیائی امور کی انجام دہی کے لیے تخصیص)، مسح کرنا (پاک تیل ملنا)، بیماروں کے لیے شفا، اِسی طرح بپتسمہ بھی اور پاک یوخرست.... اِن سب پر عمل ہوتا ہے۔ لطوریائی تقریبات کے ماحول میں بہُت سے ممالک میں مقامی روایات کو تتبع میں زیارات کے موقع محل کے مطابق بھی لطوریائی عبادت اور دُعائیں ہیں جو ادا کی جاتی ہیں۔ زیارات کے دوران پڑھی جانے والی مناجات کے علاوہ، بارش کے لیے بھی مخصوص دُعائیں ہیں، اچھی فصل اُٹھانے کے لیے دُعائیں مخصوص ہیں اور زچگی کے دوران ہر مُشکل کُشائی کے لیے بھی دُعائیں تیربہ ہدف ہیں۔ دُعاﺅں اور عبادات کا کوئی اَنت نہِیں۔

۳۔ذاتی دُعا/ نجی عبادت 

ذاتی دُعا اُس دُعا کو کہیں گے جو اکیلے میں مانگی جائے، جب کہ وہ بھی ہو سکتی ہے جو گروپ کی صُورت میں ادا ہو جیسے دِن ڈھلے کی وہ دُعائیں جو فیملی مِل کے مانگتی ہے۔ ذاتی دُعاﺅں کی بنت الفاظ وتراکیب کی پابند نہِیں ہوتی یعنی ایک لچک، رعایت، چھُوٹ حاصل ہوتی ہے کہ آپ جو بھی طرز چاہیں اختیار کر لیں مگر ہوتی وہ لازمی طور پر اُن خصوصیتوں کی حامل ہے جو خاص مسیحی ہیں۔ ذاتی اور اجتماعی دُعائیں ایک دوسرے کی ضِد نہِیں ہیں یہ تو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ ایک تکمیل کرتی ہے، دوسری کی۔ ذاتی دُعا ہو، خواہ اوروں کے ساتھ مِل کے دونوں کے سِلسلے میں خُداوند حضرت یسوع کا فرمان ہے کہ دُعا جب بھی مانگو مانگتے ہی چلے جاﺅ، تسلسل ٹوٹے نہ ہمیشہ جاری وساری رہے: ۔

پس تم خبردار اور جاگتے رہو اور دُعا کرو کیوںکہ تم نہِیں جانتے کہ وہ وقت کب ہو گا۔ 

(مُقدّس مرقس 33:13)  

پھر اُس نے اِس غرض سے کہ ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہِمّت نہ ہارنا ضروری ہے اُن کو ایک تمثیل سنائی اور کہا کہ کِسی شہر میں ایک قاضی تھا جو نہ خُدا سے ڈرتا اور نہ آدمی کی کچھ پروا کرتا تھا، اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آتی اور اُس سے یہ کہا کرتی تھی کہ میرے مدّعی کے مقابل میرا انصاف کر۔ اُس نے مُدّت تک نہ چاہا لیکن پیچھے اپنے جی میں کہا کہ ہر چند مَیں نہ خُدا سے ڈرتا اور نہ آدمی کی کچھ پروا کرتا ہُوں تو بھی اِس لیے کہ یہ بیوہ مجھے ستاتی ہے۔ مَیں اُس کا انصاف کروں گا، ایسا نہ ہو کہ یہ بار بار آ کر مجھے دِق کرے۔ اور خُداوند نے کہا کہ سنو! یہ بے انصاف قاضی کیا کہتا ہے۔ پس کیا خُدا اپنے برگذیدوں کا انصاف نہ کرے گا جو رات دِن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟ یا اُن کے واسطے دیر کرے گا؟ مَیں تم سے کہتا ہُوں کہ وہ جلد اُن کا انصاف کرے گا۔ 

(مُقدّس لُوقا 1:18تا 8) 

اِس واسطے جاگتے رہو اور ہروقت دُعا کرتے رہو تاکہ تم اُن سب چیزوں سے جو ہونے والی ہیں بچ جانے کے اور ابنِ انسان کے سامنے کھڑے ہونے کے لائق ٹھہرو۔ 

(مُقدّس لُوقا 36:21)  

پس جس دِن سے یہ سُنا ہم بھی تمھارے واسطے دُعا کرنے اور یہ منت کرنے سے باز نہِیں رہتے کہ تم کمال معرفت اور روحانی دانائی کے ساتھ اُس کی مرضی کی پوری پہچان تک پہنچ جاﺅ۔ 

(کُلُسیّوں (9:1  

بِلا ناغہ دُعا کرو۔ 

(17:5۔تسالونیکیوں1)

پس ہم تمھارے لیے ہمیشہ دُعا کرتے ہیں کہ ہمارا خُدا تمھیں اُس بلاوے کے لائق جانے اور نیکی کی ہر ایک آرزو اور ایمان کے ہر ایک کام کو قُدرت سے پورا کرے۔ 

(11:1۔تسالونیکیوں2)

ذاتی دُعا کے حوالے سے سمیت اُن دعاﺅں کے جن کا کھلے ڈُلے انداز میں اظہار کِیا جاتا ہے، یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اِس صورت میں چرچ کی طے شدہ دُعاﺅں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے جیسے ”اے ہمارے باپ“ والی دُعا، مُقدّس مزامیر، سلام اے مریم! (کیتھولکس میں رائج ہے 

اور فرشتے نے اُس کے پاس اندر آ کر کہا، سلام اے پُرفضل! 

(مُقدّس لُوقا 28:1)  

سلام اے مریم پُرفضل خداوند تیرے ساتھ ہے اور تو عورتوں میں مبارک ہے اور تیرے بطن کا پھل یسوع مسیح۔ اے مریم خدا کی ماں ہم گناہ گاروں کے واسطے دعا کر۔ اب رو ہماری موت کے وقت۔ آمین

اور اِسی طرح دوسری دعائیں، جہری خواہ سِرّی۔ یہ اکثر مسیحیوں کے روزمرہ میں شامل ہیں، خصوصاً صبح وشام یا جب وہ چھوٹے گرجا یا بڑے کلیسا میں حاضری دیں، بہُت سے مسیحی روزری سے استفادہ کرتے ہیں، ”اے ہمارے باپ!“ والی دُعا کا جاپ کریں گے۔ ”سلام اے مریم!“ کا ورد کریں گے، ادل بدل کر، باری باری اور سلسلہ عبادت ودُعا کے درمیان خُداوند سیوع مسیح کی اسراری حقیقت جو انسانی سمجھ سے بالا ہے اُس کے پہلو کو دھیان میں لا کر اُس سے برکت حاصل کریں گے۔ دِن میں کم از کم ایک بار تو تقریباً تمام مسیحی روزری کی دُعاﺅں سے ضرور مستفید ہوتے ہیں۔ 

وہ مسیحی جو دُعاﺅں اور عبادتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانا چاہتے ہیں اُنھیں پھر ناغہ نہِیں کرنا پڑتا، ممکن ہو تو وہ کامل یکسوئی سے تفکُّر کرتے ہیں اور خُدا، خُداوند اور روح القدس کے گیان دھیان کی سعادت سے بھی اپنے آپ کو مالا مال کر لینے کے مواقع نکال لیتے ہیں۔ گھر پر یا عبادت گاہ یا کسی بھی پاک مقام پر اُٹھے بیٹھتے، دوزانو یا سجدے میں وہ خاموشی، سکوت اور سکون میں خُدا سے لَو لگا لیتے ہیں، حتیٰ کہ اُس کے وہاں موجود ہونے کا عرفان اُنھیں حاصل ہوتا ہے اور کانوں میں پاک خُداوند کے کلامِ مُقدّس کا رس گھُلنے لگتا ہے۔ اِس طرح کے انہماک میں باقاعدگی اور کلامِ مُقدّس کی سماعت کے شرف سے اور گیان دھیان اور تفکُّر کے بعض اور طریقوں کی مدد سے وہ منزل پا لی جاتی ہے، جس میں ربّانی قُرب حاصل ہو جاتا ہے۔ کیتھولک عقیدہ ہے کہ خُداوند کی خاص مہربانی سے ہی عرفانی وصوفیانہ نعمت سے یوں سرفرازی حاصل ہوتی ہے چاہے راہبانہ خلوت اختیار کِیا جائے، چاہے جُلُوس میں یہ سب کچھ پا لیا جائے، بات اُس کے کرم سے ہی بنتی ہے اور باطنی فیض حاصل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ وہ مسیحی جو خُداوند حضرت یسوع مسیح کی انتہائی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروی کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ وقتاً فوقتاً روحانی مشقیں کرتے رہتے ہیں، چپکے چپکے بھی اور پکار پکار کے بھی، بے شک ہر ماہ کِسی ایک دِن یا سال بھر میں کوئی ایک ہفتہ، حسبِ توفیقِ خُداوندی۔ 

 

 

 

۴۔دُعا مانگیں تو کس سے مانگیں؟ 

دُعا کا تعلُّق مُقدّس ذاتِ خُداوندی سے ہے۔ہم خدا سے دعا مانگتے ہیں اور دعا کا مرکز بھی خدا ہی ہوتا ہے۔ ہم اس سے خُداوند حضرت یسوع کے توسُّط سے مدد مانگتے ہیں جو روح القدس میں ہے۔ پاک تثلیث کے تیسرے اقنوم میں، باب پنجم (5) میں جو بحث ”تین میں ایک“، خُدا کے بارے میں کی گئی تھی اُس کا نتیجہ یہاں بھی صادق آتا ہے۔ ہم خُداوند حضرت یسوع مسیح میں اور اُسی کے ساتھ، روح القدس کی قدرت کے ذریعے صِرف خُدا پاک کے حضور ہی دُعا مانگتے ہیں۔ 

چُناںچہ کیتھولک چرچ میں یہ جو دیگر مُقدّس ہستیوں (سینٹس) سے استدعا کی جانے کی رِیت ہے کہ وہ ہمارے حق میں دُعا کریں اِس کی بُنیاد وہ قیاس ہے کہ وہ خُدا کے حضور ہمارے لیے شفیع ہیں، ہماری سفارش کر سکتے ہیں، بُنیادی وحتمی طور تو دُعاﺅں کے لیے دامن خُداوند کے سامنے ہی پھیلایا جاتا ہے، واحد وہی ہے جو عبادت کے لائق، سب عبادتیں اُسی کے لیے ہیں.... یہی پیشِ نظر ہوتا ہے۔ 

۵۔مقصود ومطلوبِ عبادت 

بندگی کے پیچھے جو اہم ترین رویّہ کارفرما ہوتا ہے وہ لازماً عبادتِ خُداوندی ہے، جس پر تشکُّر اور اپنی ذات اور دوسروں کے لیے استعانت کی التجا کی جاتی ہے۔ عبادت ہی ہمیں یہ دانش دیتی ہے کہ رضاے خُداوندی کے حصول کے لیے ہم ہر دم ہر لحظہ دُعاگو رہیں۔ اِس سے ہی ہمیں سکون مِلتا ہے، ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے، راحتِ جاں سے ہم ہمکنار ہوتے ہیں اور تقویتِ ایمان نصیب ہوتی ہے۔ 

خُداوند خُدا کو یاد کرنے کے اوقات مقرر ہوں تو ہمارے لیے یہ مشق بہُت سودمند ثابت ہو گی۔ غیرارادی طور پر ہم زِندگی کے دوسرے معمولات میں بھی نظم لے آئیں گے، حتیٰ کہ اِس کے ثمرات پھیل کر ہمارے سارے کاروبارِ حیات کو عبادتِ خُداوندی کے ذیل میں لے آئیں گے، یقینا۔ 

اس سے یہ بات آگے بڑھتی ہے کہ وہ لوگ جو خالصتاً سچے دِل سے، اپنا آپ خُداوند کو سونپ دیتے ہیں، اُنھِیں کی عبادت مقبول ہوتی ہے اور اُنھی کی دُعائیں اثر سے مالامال ہوتی ہیں۔ عبادت کو ہماری راحت وکلفت میں بڑا عمل دخل حاصل ہے، یہ زِندگی سے فرار ہرگز نہِیں سکھاتی بل کہ یہ تو بندے کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ تگ ودو کرے خُدا کو پا لینے کی، تبھی خُداوند کی موجودگی کے آثار فرد میں بھی نظر آئیں گے اور حیاتی کے معاشرتی وسماجی تجربہ میں بھی ہویدا ہوں گے اور جب بھی فیصلہ کی گھڑی آئے گی تو وہ بندہ خُدا کی منشا اُس کی مرضی اور اُس کی مدد کے باعث سرخروئی سے ہمکنار ہو گا۔ عبادت تو جینے کے لیے جذبہ، طاقت اور ولولہ عطا کرتی ہے، یہ ہمارے اور ہمارے پڑوسی کے درمیان تعلُّقات پر اثرانداز ہوتی ہے، جینے کا قرینہ سکھاتی ہے اوریہ ہمارے دِل میں اُتر جاتی ہے اور دوسرے انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے اور محبت سب سے افضل ہے:۔

اور مَیں تمھیں اور بھی عمدہ طریقہ بتاتا ہُوں 

اگر مَیں آدمیوں اور فرشتوں کی زُبانیں بولوں 

اور مجھ میں محبت نہ ہو تو مَیں 

ٹھنٹھناتا پیتل 

یا 

جھنجھناتی جھانج ہُوں 

اور اگر نعمتِ نبوّت رکھوں 

اور ہر راز 

ہر عِلم سے واقف ہُوں 

اگر مجھ میں یہاں تک کامل ایمان ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دوں اور مجھ میں 

محبت نہ ہو تو، ہیچ ہُوں 

اور اگر اپنا سارا مال مسکینوں کو کھلا دوں 

یا اپنا بدن 

جلانے کو دے دُوں 

اور مجھ میں محبت نہ ہو 

تو مجھے کچھ فائدہ نہِیں 

محبت صابر ہے اور ملائم 

محبت حسد نہِیں کرتی 

محبت شیخی نہِیں مارتی اور پھُولتی نہِیں 

نازیبا کام نہِیں کرتی، خود غرض نہِیں ہوتی 

غصہ ور نہِیں ہوتی 

بدگمانی نہِیں کرتی 

ناراستی سے خُوش نہِیں ہوتی بل کہ راستی سے خُوش ہوتی ہے 

سب کچھ ڈھانپ دیتی ہے، سب کچھ باور کرتی ہے 

سب باتوں کی اُمِّید رکھتی ہے، سب کی برداشت کرتی ہے 

محبت کبھی 

جاتی نہِیں رہتی 

نبوتیں ہوں تو موقوف ہو جائیں گی 

زُبانیں ہوں تو بند ہو جائیں گی 

عِلم ہو تو مِٹ جائے گا 

کیوںکہ 

ہمارا عِلم ناقص ہے اور ہماری نبوّت ناتمام لیکن 

جب کامل آئے گا تو ناتمام جاتا رہے گا 

جب مَیں بچّہ تھا 

تو بچےّ کی طرح بولتا تھا، بچےّ کی طرح سمجھتا تھا 

بچےّ کی طرح سوچتا تھا 

لیکن جب جوان ہُوا تو بچپن کی باتوں سے ہاتھ اُٹھایا 

اب ہم آئینے میں دُھندلا سا دیکھتے ہیں مگر اُس وقت رُوبرُو دیکھیں گے 

اِس وقت میرا عِلم 

ناتمام ہے مگر اُس وقت 

ایسے پورے طور سے جان لوں گا جیسے مَیں بھی جانا جاتا ہُوں 

غرض ایمان، اُمِّید، محبت 

یہ تینوں قائم تو ہیں مگر 

اِن میں افضل محبت ہی ہے 

(13-1:13قرنتیوں1)

۶۔مسیحی عبادت کی مختلف اشکال 

۱۔اسی باب کے سیکشن II میں جن نکات کا حوالہ ہے وہ بہُت اہمیت کے حامل اور خاص توجُّہ کے متقاضی ہیں یعنی لفظ عبادت اور لفظ دُعا، اسلامی اور مسیحی حوالوں سے دیکھا جائے تو ان دونوں الفاظ اور اِن کے معانی میں نُمایاں تفاوت ہے۔ 

۲۔مماثلات کا تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر یہ کہ مناسب ہو گا اگر ہم مسلمانوں کی شرعی عبادت نماز کا موازنہ مسیحی لطوریائی عبادت سے کریں جیسے پاک یوخرست اور کیتھولک کلیسا میں عبادت کے سات مقررہ اوقات ہیں، اِن کی مسلّمہ خصوصیات کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا، عبادت کے لیے طے شدہ حالتیں، آداب وسکنات اور کلیسائی نغمہ سرائی نیز روزانہ کے ہفتہ وار عبادت کے طور اطوار سبھی کا مقابلتاً تفصیلی جائزہ لینا ہو گا خُدا سے فریاد والتجا کے لیے دُعا کا اسلامی انداز مسیحیوں کی نجی دُعا کے خاصا قریب ہے۔ مناجات اِسی زمرہ میں آتی ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں جو ذِکرِ خُداوندی کا سلسلہ عبادت ہے، اِس کے لیے یکسوئی، خشوع وخضوع، مسیحی غور وفکر، گیان دھیان کے طریقوں سے مِلتا جُلتا ہے۔ 

۲۔وہ جُزئیات جہاں مسلم اور مسیحی عبادات ایک دوسرے کے متوازی چلتی ہیں، مندرجہ ذیل ہیں: ۔

٭عبادت کے مفاہیم ومقاصد دونوں کے ایک سے ہیں، خُدا کی بندگی اور تشکُّر۔ 

٭روزانہ اور ہفتہ وار عبادت کا شیڈول۔ 

٭ایک جیسے مُقدّس متن جیسے زبورِ مُقدّس (مزامیر) جو نسبتاً مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ 

٭عبادت کے لیے بعض جسمانی حالتیں مِلتی جُلتی ہیں۔ 

۴۔عبادت کے شعائرِ اِسلام اور جو مسیحی عبادت میں روحانیت کا عُنصُر ہے اس تسہیلی نُمایاں فرق سے صَرفِ نظر کر لینا زیادہ مناسب رویّہ ہو گا۔ کس بات کی کتنی اہمیت اور کس قدر وقعت ہے۔ اسلام اور مسیحیت دونوں کے طرزِ عبادت میں اختلاف موجود ہونا قدرتی امر ہے۔ مگر دونوں مذاہب کی عبادات کا نچوڑ یہی ہے کہ دونوں کی باطنی اور خارجی جہات ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ عام عبادت کا خارجی طور رسمی سا مسلمہ طریقہ مسیحیت میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہی اہمیت اسلام میں بھی اِسے حاصل ہے۔ 

۵۔مسیحی عبادت میں طہارت کو باقاعدہ ایک لازمی رُکنِ عبادت کے طور وہ مقام تو حاصل نہِیں جو اسلام میں روا رکھا جاتا ہے، اِس کے برعکس ہاتھ دھونا ہی کافی سمجھا جاتا ہے، بس مسیح خُداوند کے دُنیا میں آنے سے پہلے قابلِ ذِکر بات ہے کہ یہودیوں میں قانونی حیثیت میں پرستش کی رسوم پوری سختی سے لاگو کی جاتی تھیں اور طہارت کو یہودیوں کے ہاں مذہبی طور پر وہی درجہ دِیا جاتا تھا جو مسلمانوں کے ہاں اب رائج ہے۔ معتبر وعظیم نبیوں کی روایات کے مطابق خُداوند حضرت یسوع مسیح نے بھی رسمیت کی مخالفت کی اور اُس نے اصل عبادت کے درمیان اِس تعلُّق کی بات کی جو اچھے انسانی روابط کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے: ۔

کیا تم نہِیں سمجھتے؟ کہ جو کچھ مُنہ میں جاتا ہے وہ پیٹ میں پڑتا ہے اور جاے ضرور میں پھینکا جاتا ہے۔ لیکن جو باتیں مُنہ سے نکلتی ہیں وہ دِل سے نکلتی ہیں اور وہی انسان کو ناپاک کرتی ہیں کیوںکہ بُرے ارادے مُنہ سے نکلتے ہیں یعنی خونریزیاں، زناکاریاں، حرام کاریاں، چوریاں، جھوٹی گواہیاں، کفرگوئیاں۔ یہی باتیں ہیں جو انسان کو ناپاک کرتی ہیں، مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا انسان کو ناپاک نہِیں کرتا۔

(20-17:15مُقدّس متّی)

 اور پھر ہُجُوم کو پاس بُلا کر اُن سے کہا، تم سب میری سُنو اور سمجھو! کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر اُسے ناپاک نہِیں کر سکتی۔ مگر جو چیزیں آدمی میں سے نکلتی ہیں وہی اُسے ناپاک کرتی ہیں۔ 

جس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے! 

اور جب وہ ہُجُوم کے پاس سے گھر میں گیا، تو اُس کے شاگردوں نے اُس سے اِس تمثیل کی بابت پوچھا۔ اور اُس نے اُن سے کہا، کیا تم بھی ایسے بے سمجھ ہو؟ کیا تم نہِیں سمجھے کہ کوئی چیز جو باہر سے آدمی کے اندر جاتی ہے اُسے ناپاک نہِیں کر سکتی۔ اِس لیے کہ وہ اُس کے دِل میں نہِیں بل کہ پیٹ میں جاتی ہے اور جاے ضرور میں نکل جاتی ہے۔ یوں سب کھانے کی چیزیں پاک ٹھہرا کر، اُس نے پھر کہا، جو کچھ انسان میں سے نکلتا ہے وہی انسان کو ناپاک کرتا ہے۔ کیوںکہ اندر سے یعنی انسان کے دِل سے بُرے ارادے نکلتے ہیں، یعنی حرام کاریاں، چوریاں، خون ریزیاں، زناکاریاں، لالچ، بدیاں، مکر، شہوت پرستی، بدنظری، کُفر گوئی، نخوت، حماقت، یہ سب اندرونی بُرائیاں نکل کر انسان کو ناپاک کرتی ہیں۔ 

(23-14:7مُقدّس مرقس)

۶۔عقیدت واحترام ِخداوندی مسیحیوں کے ایمان کا اہم جزو ہے۔ کیتھولک چرچ میں داخل ہوتے ہی پاک پانی سے نشان زد ہونا، مُقدّس پانی میں اُنگلیاں ڈبو کر صلیب کا نشان بنانا) مسیحی روایت ہے لطوریا ادا کرتے ہوئے پریسٹ (کاہن) کا اپنے ہاتھ دھونا اور تب مُقدّس یوخرست کی تقریب منانا دراصل بطور صاف باطنی یعنی دِل کی تطہیر کے لیے یوں ہاتھ دھونا ایک علامتی عمل ہے۔ دِل کی پاکیزگی پر سارا زور اور توجُّہ ہے نہ کہ جسمانی طہارت یا جیسا کہ ندامت اور پچھتاوے یعنی توبہ کی عبادت کے سمے سے پہلے، مُقدّس یوخرست کی ادائی کے وقت جسم کی صفائی سے زیادہ دِل کی صفائی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ 

۷۔مسیحیوں کی عبادت، اُن کی دُعا کلیسیا کے لیے ہوتی ہے، رہبرانِ سیاست وسیادت کے لیے، تمام انسانیت کے لیے اور ظاہر ہے اپنی ذات کے لیے بھی ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام عزیز واقربا کے لیے عبادت کرتے ہیں اور اپنے زیرِکفالت رشتوں کے حق میں دُعاگو ہوتے ہیں۔ اُنھیں یہ بھی چاہیے کہ وہ مسلسل دُعاگو رہیں اپنے مُسلم ہمسایوں کے لیے اور اپنے مسلمان دوستوں سے بھی درخواست کریں کہ وہ بھی اُنھیں اپنی عبادت اور اپنی دُعاﺅں میں یاد رکھیں۔ یوں خلوص کے بل بوتے پر خُداوند قدوس کے حضور دونوں اپنے اِس رشتے کو استوار رکھنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ دونوں اُس خداے واحد کو ماننے والے ہیں، دونوں ایک ہیں جس طرح وہ تین میں ایک ہے۔ 

۸۔جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا مسیحی اور مسلم ایک دوسرے کی عبادتوں میں شریک ہو سکتے ہیں یا نہِیں، تو جواب یہ ہے کہ مسیحی عبادات میں مسلمانوں کی شرکت کے امکانات موجود ہیں، مگر مشروط اور اِس کے لیے ملکی اور معاشرتی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا: ۔

الف)پبلک چرچ سروسز 

کوئی مضایقہ نہِیں اگر مسلمان گرجا گھروں یا عبادت کے دیگر مقامات پر آنا چاہیں تو بے شک بِلا جھجک آ جائیں، خاموش عبادت ہو رہی ہو، (سِرّی عبادت) یا اگر وہ چاہیں تو بھلے اُن مسیحی عبادتوں میں بھی ایک خاموش مہمان کی حیثیت سے شامل ہو جائیں جنھیں آفیشل سروسز آف کرسچن پریئر کہا جاتا ہے، تاہم کلیسا کی لطوریائی عبادات میں فعال اور صریح شمولیت کا تقاضا یہی ہو گا کہ وہ عبادت میں مخل نہ ہوں، خاموش مشاہدہ جاری رکھیں اِس عقیدت کے ساتھ کہ جہاں وہ ہیں وہ بھی خُدا کا گھر ہے اور اُسی ایک خُدا کی عبادت ہو رہی ہے جس کی وہ پرستش کرتے ہیں۔ یہاں وہ مسیحی طرزِ عبادت کے تجربہ سے گذرتے ہیں جیسے عبادت کا راہبانہ وِرد یا مُقدّس یوخرست کی تقریب جو خاص مسیحی عبادت ہے اور مسیحیت میں ایمان لازمی شرط ہے۔ راسخ العقیدہ مسیحی ہی اُس میں شمولیت کر سکتے ہیں۔ چُناںچہ اگر مسلمانوں کو بھی شرکت کی سعادت مِلی ہے تو وہ خاموشی سے شریک رہیں، ذہن میں کلیسا کا تقدُّس سجائے اور وہاں مذہبی رسوم جو ادا کی جا رہی ہیں اُن کی تقدیس دِلوں میں بسائے۔ 

ب)جب کبھی کِسی مسلمان کو پبلک کرسچن سروسز سے براہِ راست واسطہ پڑتا ہے جیسے جنازے کی مسیحی عبادت، بین المذاہبی شادی، مسیحی رشتہ داروں کی طرف سے بپتسمہ کے سِلسلے کی دعوت پر یا ہمسایوں یا دوستوں کی دعوت پر تو مسلمانوں کے عِلم میں ہونا چاہیے کہ ایسی تقریبات کا سیدھا سیدھا صاف صاف مسیحی طرزِ معاشرت ومذہب سے خاص تعلُّق ہے اور اپنی نوعیت میں یہ خالص مسیحی تقریبات ہیں جن میں وہ شریک ہیں مثلاً کلامِ مُقدّس کا متن، یا دوسری دِینی رسومات کی ادائی۔ اور یہ بھی ہے کہ چرچ کی لطوری ہدایات جن کا تعلُّق پڑھنے، تلاوت کرنے کے لیے چیدہ چیدہ اقتباسات، ایسے مواقع پر مذہبی خطاب سے ہوتا ہے وہ مُتعلّقہ حالات کے مطابق اور موقع محل ومختلف شرکا کے مطابق تشکیل پاتی ہیں۔ ہمارا اشارہ اِس طرف ہے کہ رسومات میں واضح ترتیب وتشکیل میں اگر مناسب گنجایش نکال لی جائے تو یہ بھی مناسب بات ہو گی کیوںکہ بعض رسوم، اُن کی ادائی، وعظ وخطاب میں بعض حوالے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے دِل مَیلے ہوتے ہیں۔ کِسی کی دِل آزاری مقصود نہِیں ہونی چاہیے۔ موقع کی مناسبت سے مسلمانوں کی روحانی اسلامی تعلیمات کے بعض حوالے شامل کیے جا سکتے ہیں، یعنی ایسے متن جو دونوں اطراف قابلِ قبول ہوں۔ مُسلم صوفیہ اور اولیا کرام کی باتوں کے حوالے، اُن کی تصنیفات وتالیفات سے اقتباسات، اُن کے برعکس قرآنی آیات اور دیگر شرعی اسلامی حوالہ جات سے اجتناب ہی روا رکھا جائے تو یہ بھی احسن اور محتاط رویّہ ہو گا۔ تعزیتی ریفرنسز میں، فوتیدگیوں پر اکثر مسلمان سورة فاتحہ ضرور پڑھتے ہیں: ۔

شروع کرتا ہُوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ بدلے کے دِن (یعنی قیامت) کا مالک ہے۔ ہم صِرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صِرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دِکھا۔ 

اُن لوگوں کی راہ جن پر تُو نے انعام کِیا، اُن کی نہِیں جن پر غضب کِیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔  

(القرآن، فاتحہ: 1تا7)

مسلمان اِس پڑھے کا ثواب فوت ہو جانے والے یا والی کی روح کو بخشتے ہیں، تاکہ دوسری زِندگی میں اُنھیں سکون ملے اور اُن مرحوم یا مرحومہ کو نجاتِ اُخروی نصیب ہو۔ چُناںچہ مُسلمانوں سے ایسے موقع پر اگر فاتحہ پڑھنے کو کہا جائے تو وہ ضرور ممنون وشکرگُزار ہوں گے۔ تاہم یہ جتنے مشورے دیے گئے ہیں اُن پر ضروری ہے کہ مقامی کلیسا کی ہدایات کے عین مطابق عمل کِیا جائے تاکہ ایسی کوئی صورتِ حالات نہ پیدا ہو جائے جو باہم نیک تعلُّقات کی راہ میں حائل ہو اور بین المذاہب ہم آہنگی کے جذبہ کو نقصان پہنچے۔ 

ج)ہاں، لچک کا بکثرت مظاہرہ بھی ممکنات میں سے ہے، مثال کے طور پر ایسی صُورت میں کہ ایسی کوشش مُسلمانوں اور مسیحیوں کے ننھے ننھے گروہ جو ایک دوسرے سے اچھی طرح آشنا ہوں، وہ کر رہے ہوں اور اِس احتیاط کے ساتھ کہ اُن کے شُعُور میں ہو کہ یہ پیدا کی جانے والی موافقت متضاد مذاہب یا عقائد کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش ہے، مسیحی کو مسلم اور مسلم کو مسیحی بنانے کا عمل نہِیں۔ ایک بات اور بھی ممکن ہے کہ جس سے دُنیا کو ایک اچھا پیغام جاتا ہے کہ اوپر پیرا میں دی گئی مثالوں سے مستفید ہوتے ہوئے صوفیہ، اولیا، سینٹ، سنت، گروﺅں کے ایسے کلام جو تعصُّب سے ماوریٰ پوری انسانیت کے لیے لکھے گئے ہوں اُنھیں مِل کر پڑھا، گایا جا سکتا ہے، شریک گروپس خُود بھی اگر کوئی کلام لکھ لائے ہیں تو اُسے کورس میں الاپنے کو ترجیح دی جا سکتی ہے، وہ زیادہ حسبِ حال ہو گا اور مختلف مذاہب میں ہم آہنگی اور صلحِ کُل کا علمبردار بھی۔ برجستہ دُعائیں بھی یہاں مفید المطلب ثابت ہو سکتی ہیں۔ دونوں مذاہب (مسیحیت اور اسلام) میں مقبول دُعائیں، اے ہمارے باپ والی، اور الحمد اللہ پوری مِل کر دُہرائی جا سکتی ہیں، بشرطے کہ وہاں موجود ہر شخص اِس پر راضی ہو کیوںکہ تالیفِ قلب مطلوب ہے، کِسی کی بھی مذہبی معاملات میں دِل شکنی مقصود نہِیں.... اِس سب کچھ کا دارومدار اُس فضا، فضاے ہم آہنگی پر منحصر ہے جو خوش قسمتی سے، اچھی بُنت، خُلُوص اور بہ تقاضاے امن وآشتی پیدا کر لی گئی ہو، کیوںکہ کوئی مذہب نہِیں سکھاتا کہ آپس میں بَیر رکھا جائے۔ 

د)مسلمانوں کی اگر کوئی جماعت، بچےّ یا بڑے، یہ درخواست گُزاریں کہ کسی مسیحی ادارے میں اُن کے لیے بھی عبادت کی غرض سے کوئی کمرا مخصوص کر دِیا جائے، مثلاً ایسا مُعاملہ مسیحی تعلیمی ادارے میں پیش آ سکتا ہے، تو جناب ایسی کوئی گزارش منظور کر لینے میں ہرج ہی کیا ہے۔ جذبہ خیرسگالی ہی کو تقویت ملے گی، نا۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?