German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر50

۔مجھے مذہبِ مسیحی کیوں اختیار کر لینا چاہیے، آخِر کیوں؟ وجہ؟ مُجھے کیا فائدہ؟ اس میں میرے لیے کیا بھلائی ہے؟ اور اس کی بھی کیا ضمانت ہے کہ آخِرت کی ابدی زندگی مسیحیت اختیار کرنے سے مُجھے ضرُور مل جائے گی؟ کون ذِمّہ داری لے گا؟ جیسے یہُودیوں کے بارے میں مسیحیوں کی کوئی اِتنی اچھّی راے نہِیں، بعینہ مسلمان بھی مسیحیوں کو کُچھ زیادہ درخورِ اعتنا نہِیں سمجھتے، پِھر صحیح الٰہی مذہب کون سا ہُوا، مَیں کِدھر جاﺅں؟ ہر مذہب کِسی بھی دُوسرے مذہب کے گردا گرد فرضی پریوں اور پری زادوں کی طِلِسماتی کہانی سی بُن دیتا ہے۔ پِھر سچ کو ہم کہاں تلاش کریں؟ کون سا دِین سچّا ہے، کون سا نہِیں، یقین کیسے آئے؟ مستحُکم دلائل کون دے گا، ٹھوس ثبوت کون فراہم کرے گا؟ کِس کی مانیں، کِس کی دعوت رد کریں؟.... اِتنی بے شمار مخلُوقات کا کوئی نہ کوئی خالق تو ضرُور ہے، پر اس ربِّ کائنات تک پہنچنے کا راستہ کون سا مذہب دِکھاتا ہے، یہ کیسے پتا چلے گا؟ روشنی ڈالیں؟

 

جواب:۔ نمبر ایک، تو یہ ہے کہ جناب کرسچین ڈبلیو ٹرال، ایس جے کی شہرئہ آفاق کتاب کے مواد سے اور گذشتہ سُوالات کے جوابات سے یہ بات واضح ہو جانی چاہیے تھی کہ یہ مذہبِ مسیحیت ہی ہے جس کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ وُہ ایک سچّا اور سُچّا مذہب ہے۔ نمبر دو، یہ بات اپنی جگہ مُسلّم ہے کہ اس دعوے سے ہرگز یہ مُراد نہِیں کہ دُوسرے مذاہب جیسے یہُودیت ہے یا اسلام ہے، ان کے مقابلے میں مسیحیت سمجھے کہ وُہ اس پوزیشن میں ہے، اور حق بجانب بھی چُناں چہ دھڑ سے فیصلہ سُنا دے کہ وُہ تو اصلاً باطل، بُودے اور ناقص مذاہب ہیں۔ سُوال کنندہ سے التماس ہے کہ تھِیم11 اور تھِیم4 مع سُوال نمبر42 کے جواب کے ایک مرتبہ اور، مگر ذرا غور سے اپنے زیرِ مطالعہ لائیے، پِھر جو بات مَیں نے کہی ہے وُہ پوری طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے گی۔

اب رہی بات یہ کہ کوئی مسیحی کیوں بنے؟ ہر یقینِ کامل رکھنے والا مومن مسیحی آپ کے ضرُور گوش گزار کر ے گا یہ حقیقت کہ مسیحی ہونے کا اجر ہے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کا ملاپ۔وہی سیدھا راستہ ہے، حق سچ ہے اور وُہی زندگی ہے۔

حوالہ:مُقدّس یوحنا....5:14

مسیحیت کی گود میں اِ س لیے بھی پناہ لینا پڑے گی کہ عُمر بھر جسے حق سچ کی جُستجُو رہی، مسیحیت اس کی محنت رایگاں نہِیں جانے دیتی اور اس سرگرداں بندے کے مقصود کو مطلوب اور مطلوب کو موجُود کرتے ہوئے یہ سچّا مذہب اس کی تسلی کر دیتا ہے۔ اِنسان کی اصل تشفّی مسیحیت کی مرہونِ منّت ہے۔ معرفتِ خُداوندی بندے کو مِل جائے تو اور کیا چاہیے؟ پِھر بھی اگر مسیحی مذہب اختیار کرنے کے فائدے ہی ڈُھونڈنے ہیں تو اصطباغ لیتے ہی مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح ، خُدا میں اس کا بیٹا، اس نئے مسیحی پیروکار کی حیات میں آ جاتا ہے۔ اور اُسے حق دے دیتا ہے کہ وُہ اس کا دین دار اُمتی بن جائے، اس کا اور اُس کے کلیسیا والوں کا اطاعت شعار، وفادار بندہ، کہ سبھی اُس کے ماننے والے ہیں اور اب وُہ بھی اُن میں شامل ہے۔ پِھر تو مُقدّس خُدا بیٹے کے اس خاص فضل اور اس کی برکت کے ساتھ وُہ مسیحی حقیقی خُوشی پا لیتا ہے۔ مسیحیت اسے بھلائیاں، دُعاﺅں کی مقُبُولیت اور دُنیا میں سرفرازی عطا کرتی ہے۔ اپنی آخِرت اُسے آپ سنوارنا پڑتی ہے اور وُہ جو سچّا اور حقیقی رب ہے اس کوشِش میں بھی اس کی استعانت کرتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ خُداوند یسُّوع مسیح پاک نے اسی کی مُکتی کے لیے تو اپنی جان کا فدیہ گزارا تھا۔ مسیحیت میں نجات ہے۔

تمام کی تمام مسیحی قوم اور مسیحی کلیسیاکا خُدا شان والے پر پکّا یقین اور ایمان ہے۔وہ ہم پر رحم ا ور رحمت کرنے والا، خالق و مالک اور پالنہار ہے، اُس نے اپنے مُقدّس بیٹے کے ذریعے اپنے آپ کو ہم اِنسانوں پر ظاہر کیا اور ساتھ ہی ساتھ حق سچ بھی آشکار کر دیا۔ اس لیے قطعی دو ٹوک بات یہ ہے کہ یسُّوع پاک کو جاننے، سمجھنے، پانے کے مشتاقین کے لیے اُس عظیم ترین ہستی تک، اور جو اس کا دعویٰ ہے اس تک پہنچنے کے لیے ضرُوری ہے کہ اپنے آپ کو اِس لائق بنائیں، روبرو ہونے کا یارا پیدا کریں، خلوص اور لگاو کو بیدار رکھیں تو.....

عقل نے ٹوکا ہر ہر گام

عشق نے پُکارا وُہ ہے منزل

جی ہاں، تو پِھر اس منزل کو پا لینے والی آس خواب نہِیں، حقیقت بن جائے گی۔ جن باتوں کا ذکر ہُوا ہے، ان پر سیر حاصل گفتگو کتاب کے تھِیم نمبر2 میں بھی ہو چُکی ہے۔ اس سلسلے میں مزید ایک اقتباس جو ماہر الٰہیات، دِینی سکالر و رہنما جناب اوٹو ہیرمن پیش کی مذہب پر ننھی سی کتاب (ٹوپوس پاکٹ ایڈیشن29 ) سے لیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیے!

ابنِ آدم!

.... اگر آپ یہ جاننا، سمجھنا چاہتے ہیں کہ ایسی بھی کیا کشش تھی مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح میںکہ جو کوئی اُس پر ایمان لایا بس اُس کی طرف کھنچا چلا آیا، تو عرضِ حال یہ ہے کہ وُہ بیٹا تھا خُداوند قُدُّوس کا، اُس نے اُس میں اپنا اِظہار کِیا، روے زمین پر اس کی حیات جتنی بھی گُذری اگر اس پر نِگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا، وُہ اِبنِ آدم، اِنسانوں میں عام اِنسان کی زندگی جیا۔ اُس زمانے کے لوگوں کے عین مُطابِق اس نے ایک عُمر یہاںبِتائی۔ یُوں سمجھےے لگتا تھا وُہ بشر ہی تھا، سارے کا سارا، اور سونے پر سہاگا یہ کہ بہُت ہی بھلا آدمی تھا جو دُکھی اِنسانِیّت کے زخموں پر اپنے فضل کے پھاہے رکھتا رہا۔ یہ سب کُچھ تھا مگر مزید برآں اس میں کیا چیز تھی بہُت خاص، غیر معمولی؟

بہُت کُچھ تھا اس میں۔ اوّل اوّل آپ کو بتاتا چلوں، وُہ دُنیا میں آیا تو اپنے ساتھ ولولہ انگیز فعالیت کا پیغام لے کر آیا۔ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے.... بڑے پیغمبر اور نبی خُدا جلال والے کا پیغام لا چکے تھے مگر جو پیغام وُہ لایا وُہ قُدُّوسیت میں سے انوکھا تھا۔ اس نے آفاقی بشارت کی منادی کر دی کہ خُدا کی بادشاہت بہُت جلد قائم ہونے والی ہے۔

اور کہا کہ وقت پُورا ہُوا اور خُدا کی بادشاہی نزدِیک آگئی ہے توبہ کرو اور انجیل پر ایمان لاﺅ۔

مُقدّس مرقس....15:1 ویں آیت

اس کے مطلب پر غور کِیا آپ نے؟ کہا گیا ہے کہ خُدا، عظیم و سب سے زیادہ مہربان و مَحَبّت کرنے والا، سب اِنسانوں کے پاس پاس ہے، بہُت ہی قریب۔ سب کے پاس۔ ہر ذی رُوح کو جانکاری ہونی چاہیے، اور ایمان کی حد تک یہ یقین بھی کہ مُقدّس خُدا، اپنے جلال میں سب کا خُدا ہے۔ پالنے والا، نگہبان، دُعائیں قُبُول کرنے والا، مُرادیں برلانے والا وُہ انھیں بھی رزق دیتا ہے جو مانتے ہیں اوراُن تک بھی روزی پہنچاتا ہے جو اس کا انکار کرتے ہیں۔ صدیاں تو کیا، اب تو ہزاریوں پر ہزاریاں بیت چُکیں، اب تو وُہ غیر یقینی والی کیفیت کبھی کا دم توڑ چُکی جب واضح نہ تھا کہ خُدا اپنے بندوں سے کیا مُعاملہ روا رکھے گا، مَحَبّت والا یا داروگیر والا۔

مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے اِنسانی ز ندگی کے پیغام کے سلسلے میں جو نتائج اخذ کیے وُہ سیدھے سیدھے جان جوکھوں میں ڈالنے والے نتائج تھے، ہمیں خوف کو دِل سے نکال دینا چاہیے۔ اور خوف چاہے خُدا کا ہو یا کِسی بھی آدمی کا، اسے خُود پر حاوی نہِیں ہونے دینا، ہرگز نہِیں۔ ورنہ آ بیل مُجھے مار والی مثال آ پ پر صادق آنے لگے گی۔ یعنی عمیق فکر، اتھاہ سوچ، جان لیوا تفکرات اور جیون کو اجیرن کردینے والی چنگاریوں نے ہڈیوں میں اُتر جانے والے خوف کی ہوا پا کر بھڑک اُٹھنا ہے، وُہ خوف ہے کِس بلا کا؟ وُہ بلا یہ ظالم تصوُّر ہے کہ ہر شے نے انجامِ کار نکمی، بے مقصد اور فالتو، بے کار شے ہی ثابت ہونا ہے۔ مگر ایک بات اٹل ہے اور وُہ حوصلہ دینے والی بات یہ ہے کہ ہم بندوں کے گُناہ، خطاکاریاں اور بے وفائیاں ہمارے مُقدّس خُدا باپ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہِیں، بے وقعت ہیں۔ تمام راہیں اُس کی بے حد و حساب مَحَبّت کی طرف جاتی ہیں، بے روک، بے ٹوک۔ ہم جیسے بھی ہیں، اُس کے ہیں۔

چنگی آں کہ مندی ہاں

صاحب تیری بندی ہاں

 ہمیں اپنی مہر و مَحَبّت سے نوازنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھلا وُہ کیسے برداشت کر سکتا ہے! لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ تمام و کمال خُوشی جس کا تصوُّر بھی محال نظر آتا ہو وُہ خُوشی اِنسان کی پہنچ میں لازماً آجاتی ہے۔ اس لیے انھیں دُوسروں کے سامنے مسرت و انبساط کی مثال بن کے زندہ، سلامت، خُوش باش نظر آتے رہنا چاہیے۔

اور یہ بھی ہے، خُداوند قُدُّوس تو تمام ہی اِنسانوں سے پیار کرتا ہے، سبھی اُس کے پیارے ہیں، مگر بندے بندے میں تو فرق موجُود ہے نا، پر اُس کی طرف سے اپنے بندوں کے ضمن میں کوئی تفریق قائم نہِیں کی جاتی۔ نہ طبقاتی امتیازات، نہ حیثیت نہ رُتبہ کام آتے ہیں، نہ ہی بحرِ علوم کے شناور ہونے کی شیخی، علمیت کا گھمنڈ، اور نہ ہی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے پہاڑ کام آتے ہیں۔ اس کی بادشاہت میں سب اِنسان برابر ہیں۔ اس کی مَحَبّت کے برابر مستحق۔ اور تو اور پُر تقصیر سے پُر تقصیر اِنسان، خطاﺅں، گُناہوں میں لتھڑے آدمی بھی اُس کے حضورمقُبُول ہیں۔ وُہ بھی تو اُسی کی مخلُوق ہیں۔ خالق کو اپنی تخلیق تو پیاری ہوتی ہی ہے۔ ایک آنکھ ٹھیک ہو، دُوسری میں نقص ہو، خراب ہو تو، اسے نکالا اور پھینک دیا، ایسا تو کبھی نہِیں ہوتا۔ اس کا علاج کِیا جاتا ہے۔ اسے دُرُست کِیا جاتا ہے۔ نیکوکار ہونے کے دعویدار گنہگاروں کی طرف حقارت سے نہ دیکھیں اور پِھر وُہ بات یاد رکھیں کہ:

مجھ کو ہے اپنے گنہ کا اعتراف

پہلا پتھّر کون مارے گا

عدل و انصاف، صلح و دوستی اِنسان کی ضرُورت ہیں اور مَحَبّت، فاتحِ عالم ہے، مختارِ حیات ہے، ہماری زندگی ہے۔ وجہِ سکون اور سببِ راحت و اطمینان بھی ہے مَحَبّت۔

پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے جس الٰہی پیغام کی تبلیغ کی اس پر تمام انبیا کرام سے بڑھ کر خُود بھی عمل کر کے دِکھا دیا۔ اس نے اپنے شاگردوں کو مجتمع کِیا اور الٰہی پیغام کو دُور و نزدِیک فرد فرد تک پہنچانے میں اس نے انھیں اپنا شریکِ کار بنایا۔ اس کام کے لیے اس نے ایسے لوگوں کا چناو کِیا جن کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی احکامِ الٰہی، شریعت اور قانون کا استاد نہ تھا۔ جیسے لوگ خُداوند پاک نے منتخب کیے، کبھی بھی کوئی اپنے لیے اور ایسے آفاقی پیغام کے لیے اپنی عزت اور شُہرت اور ساکھ کے رِسک پر اپنی ٹیم میں نہ لیتا۔ کون تھے وُہ لوگ؟ ان شاگردوں میں کوئی مچھیرے تھے، کوئی بس سیدھے سادے اِنسان، کئی دیہات کے بے توقیر لوگ اور ایک آدھ مفصلات کے لیے شاہی کارندے جنھیں دیکھتے ہی لوگ پٹاک سے دروازے بند کر لیں۔ وُہ جو ایک طرح سے اچھوتوں سا سُلُوک سہہ رہے تھے اُنھیں خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنے ساتھ، اپنے پاس دسترخوان پر بٹھایا، ان میں خواتین بھی تھیں جن کے تعاقب میں کوئی اچھّی شُہرت نہ تھی، ایسے بھی لوگ تھے جو غیر معتبر اور مشکوک کردار رکھتے تھے مثلاً ٹیکس کلکٹر وغیرہ۔ خُداوند خُدا کی دُوسروں کو یہی تلقین تھی کہ وُہ سب بھی ایسا ہی سُلُوک نِبھائیں جیسا عزت و توقیر والا سُلُوک اس نے خُود سب کے لیے روا رکھا تھا۔ اِنسان کی قدر ہونی چاہیے۔ یسُّوع پاک نے اس معاشرت کی ہیئت ہی بدل کے رکھ دی۔ اس نے امیر غریب کی روایتی درجہ بندی مٹا دی، یومِ سبت پر بیمار و لاغر لوگوں سے تعاون کِیا جانا ٹھہرا، ان کی مدد کی جانے لگی۔ وُہ بہ نفسِ نفیس ہیکل میں جا پہنچا اور خُدا پرستی کے سارے یہُودی نظام کی اس نے علی الاعلان مذمت و ملامت کی۔ خُداوند خُدا نے سب کو متنبہ کِیا کہ یہ سب جویہُودی کررہے ہیں وُہ حُکمِ ربی کے مُطابِق نہِیں۔ التفاتِ خُداوندی بھی بھلا کوئی خرید سکا ۔ بندوں پر اس کا کرم کرنا تو اُس کا احسان ہے جو عام ہے، اس کی بندہ پروری کوئی بکاﺅ مال نہِیں، انعام ہے۔ خلقتِ خُداوند کو تو پُورا پُورا یقین اور پُختہ اِعتبار ہونا چاہیے کہ وُہ خالق و مالکِ دوجہان سب سے پیار کرتا ہے، وُہ جو بھی ہیں، جہاں ہیں جیسے بھی ہیں اعمال اچھّے ہیں یا بُرے وُہ تو سب اِنسانوں سے مَحَبّت کرنے والا پاک خُدا ہے۔ اور سب اس کے خلق کیے ہوئے، پیارے بندے ہیں جو اُسے بچوں کی طرح عزیز ہیں۔

دُوسرے اعلیٰ مقام مُقدّس نبیوں نے بھی ایسی ہی باتیں کی تھیں مگر اپنی حُدُود میں، اپنے مقرر کردہ علاقوں میں رہ کر جتنا کہا گیا تھا، اُتنا ہی آگے اُنھوں نے پہنچا دیا، بس۔ اور جب خُداوند یسُّوع مسیح نے لوگوں سے کلام کِیا تو ابتدائی دنوں میں اُس کے مُعاصرین نے اس کے بارے میں یہی قیاس کِیا کہ یسُّوع المسیح بھی ایک نیا نبی بھیجا گیا ہے، ذی اثر و زورآور۔ لوگوں کے قیاسات اور اصل حقائق میں ظاہر ہے بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہمارے یسُّوع پاک کا تو دعویٰ ہے کہ جتنے بھی انبیا مُقدّسین اور اساتذہ کرام اس سے پہلے گُذرے اُن سے اِس کا مقام الگ اور حیثیت بہُت مُختلف تھی۔ استاد راہبر کہتا ہے،موسیٰ نبی نے یُوں کہا اور جب کوئی نبی کلام کرے تو وُہ کہتا ہے، خُدا جلال والے نے کہا.... مگر یسُّوع پاک نے جب بات کی کِسی کے حوالے سے نہِیں کی۔ کِسی بھی عظیم طاقت کے توسُّط سے اُس ے کبھی کُچھ نہ کہا۔ وُہ تو جب بھی بات کرتا یُوں کرتا، تصدیق! مَیں تُمھیں کہتا ہوں کہ.....

اب اس سے اگلے مرحلے کا سفر شُرُوع کرتے ہیں۔ خُدا کی اُلُوہیت میںخُداوند یسُّوع مسیح کا آنا یا اس کی بادشاہت میں داخلہ جو خُداوند کا دعویٰ تھا اگر اس تک کِسی بھی ذی بشر کی رسائی ہُوئی ہوتی تو وُہ بتا سکتا کہ اس نے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کو کیسا پایا اور اس کا مقام، حیثیت اور ہستی کیا ہے۔ یہ بات تھوڑا کھُل کر اس وقت سامنے آئی جب اس نے اپنی جاے پیدایش ناصرت میں کلام کِیا۔

اور یسُّوع رُوح کی قُوّت سے جلیل کو لوٹا اور آس پاس کے سارے علاقے میں اُس کی شُہرت پھیل گئی اور وہ اُن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا۔ اور سب اُس کی تعریف کرتے رہے۔ پھر وہ ناصرت میں آیا جہاں اُس نے پرورش پائی تھی۔ اور اپنے دستور کے مطابق سبت کے دِن عبادت خانے میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔ اور اشعیا نبی کا طُومار اُسے دیا گیا۔ اور جب اُس نے طُومار کھولا تو وہ مقام پایا جہاں یہ لکھا تھا کہ

رُوحِ خُداوند مُجپ پر ہے۔

اِسی لیے اُس نے مُجھے مسیح کیا۔

کہ مِسکِینوں کو خُوشخبری دُوں۔

اُس نے مُجھے اِس لیے بھیجا ہے۔

کہ قیدیوں کو رِہائی۔

اور اندھوں کو بینائی۔

اور کُچلے ہُووں کو آزادی بخشُوں۔

اور خُداوند کے سالِ مقبُول کو مُشتہر کر دُوں۔

اور وہ طُومار لپیٹ کر اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا۔ اور عبادت خانے میں تھے اُن سب کی آنکھیں اُس پر لگی تھیں۔ تب وہ اُن سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تُمھارے کانوں میں پُورا ہو کر پہنچااور سب نے اُس پر گواہی دی اور شفقت کی اُن باتوں پر جو اُس کے مُنہ سے نکلتی تھیں تعجُّب کر کے کہنے لگے کیا یہ یُوسُف کا بیٹا نہیں۔

اُس نے اُن سے کہا کہ تُم بے شک یہ مثل مُجھ پر کہو گے۔ اے طبیب تُو اپنا علاج کر۔ جو کچھ ہم نے سُنا ہے کہ تُو نے کفر نحُوم میں کِیا یہاں بھی اپنے وطن میں بھی کر اور اُس نے کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ کوئی نبی اپنے وطن میں مقبُول نہیں ہوتا لیکن مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب الیاس کے دِنوں میں تین برس چھے مہینے تک آسمان بند رہا یہاں تک کہ تمام مُلک میں سخت کال پڑا۔ تو بہُت سی بیوائیں اسرائیل میں تھیں۔ مگر الیاس سواے صیدُون کے صارفت کی ایک بیوہ عورت کے اُن میں سے کِسی کے پاس بھیجا نہ گیا اور الیسع نبی کے وقت اسرائیل میں بہُت سے کوڑھی تھے لیکن اُن میں سے کوئی پاک صاف نہ کِیا گیا سواے نعمان سُریانی کے اور جتنے عبادت خانے میں تھے سب اُن باتوں کو سُنتے ہی غُصّے سے بھر گئے اور اُٹھ کر اُسے شہر سے باہر نکالا اور اُسے اُس پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جس پر اُن کا شہر بنا ہوا تھا تا کہ اُسے سر کے بَل گرا دیں لیکن وہ اُن کے بیچ سے گذر کر چلا گیا۔

مُقدّس لُوقا....14:4 تا 30 آیات 

یہاں مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے بہ وضاحت کہا، مَیں وُہی ہوں جس کے بارے میں نبیوں نے بشارتیں دیں اور وعدے کیے اور وُہ سب سچ ثابت ہوئے۔ سامعین نے اس کی باتوں کا یقین نہ کِیا، خُداوند یسُّوع پاک کی مُقدّس نِگاہوں میں یہ نری بدگُمانی تھی، بے اِعتباری تھی اور صریح کفر تھا۔ چُناں چہ اس نے ہاتھ روک لیا تا کہ جس شہر ناصرت میں اُس نے پرورش پائی تھی وہاں کوئی معجزہ، کوئی محیر العقل کرشمہ نہ دِکھائے کہ اس کے شہر والوں نے آنکھوں دیکھ کے بھی انکار ہی کرتے رہنا تھا۔ سرائیکی زبان کی ایک مثال ہے.... گھر دا پِیر،چُلھ دا وٹّا.... اس لیے ناصرت میں وُہ کوئی عجوبہ روزگار عمل سامنے نہ لایا کہ اپنے شہر، محلہ، دیہہ گھر میں بڑے بڑوں کی قدر بس چولھے کے پتھّر والی ہی رہ جاتی ہے۔ اس نے تو دُوسرے شہروں میں بھی معجزہ نمائیوں سے اجتناب ہی کِیا۔ ہاں وُہ جنھوں نے پاک خُداوند کی اطاعت قُبُول کی، اس کا یقین کِیا، اس پر ایمان لائے۔ یہ نہِیں کہ کبھی کبھار، دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں ہمیشہ وُہ اس کے ہمراہی رہے، وُہی مُقدّس خُداوند کے قربِ خاص کے تجربہ سے بھی گُذرے۔

حرفِ آخِر یہ کہ، مُقدّس یسُّوع مسیح کے لبوں پر جب بھی مُقدّس باپ کا ذِکر آیا تو ایسا کبھی نہ ہُوا اس نے اپنے آپ کو اور اپنے سامعین کو یک مُشت کر کے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے کہا ہو ، ہمارا باپ۔ نہِیں کبھی نہِیں۔ا س نے وُہ تمیز قائم رکھی جو تُمھارا باپ اور میرا باپ پُکارنے میں ہے۔ سب اِنسان خُدا کے بچے ہیں، دُرُست، مگر مُقدّس یسُّوع مسیح اس کا بیٹا ہے۔ خُدا بیٹے میں خُدا باپ، خُدا باپ میں خُدا بیٹا۔

ابنِ خُدا

خُداوند یسُّوع اقدس کے مُبارک خُطبہ کے قریبی سامعین جو تھے وُہ جان چکے تھے کہ پاک خُداوند کا جو ناقابلِ یقین دعویٰ ہے اس پر دو طرح کے ردِّ عمل سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ یا تو اپنے آپ کو اس کے سِپُرد کر دیا جائے اور جو وُہ کہتا ہے اس پر آمنّا و صدقنا کہہ دیا جائے اور یایہ مان لیا جائے کہ وُہ بے اِعتبارہ بندہ ہے، جھُوٹانبی ہے اور خُدا اور اُس کے نبیوں، رسُولوں، مُقدّسین کی بے حُرمتی کرنے والا شخص ہے۔ وُہ جو اس پرایمان نہِیں لانا چاہتے تھے ان کے سُلُوکِ بد میں کوئی تبدیلی نہ آئی، اُنھوں نے اُسے گرفتار کر لیا اور دِین، مذہب، انبیا، خُدا کی شان میں گستاخیوں کے جُرم میں اور رومی فوجی عدالتوں سے اس کے خلاف شورش پسندی کی بھی تعزیرات لگوا کر اُسے صلیب پر کھینچ دیا۔ چرخِ گردوں اس وقت بھی خاموش رہا جب مصلُوب پر فقرے کِسے جا رہے تھے، پھبتیاں اُڑائی جا رہی تھیں۔ صلیب تو چُپ تھی ہی پاک خُداوند یسُّوع مسیح بھی خاموش تھا۔ اُس صبر اور خُدائی برداشت والے نے اپنی جان کے صدقے میں سب کو بچا لیا۔

اور اِسی طرح سردار کاہِن بھی مع فقیہوں کے آپس میں یُوں کہہ کر ٹھٹھّا کرتے تھے کہ اس نے اوروں کو بچایا اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔

مُقدّس مرقس....31:15ویں آیت

اپنی جان سب کو پیاری ہوتی ہے، پر یسُّوع پاک نے پیار سے جان سب پر وار دی۔ مکمل مکتی کا سامان ہو گیا۔ سب کے لیے......

عقیدہ و ایمان کے توسُّط سے ہم مسیحی تو اِس کہانی کے آغاز سے نزدِیکی انجام تک کے گواہ ہیں۔ شاگردانِ خُداوند یسُّوع مسیح حد درجہ مایُوسی میں ہرآس اُمِّید توڑ بیٹھے تھے عجب رنج و محن کا مقام تھا۔

مگر ہمیں تو اُمِّید تھی کہ یہی اسرائیل کو مُخلصی دے گا اور اِن سب باتوں کے علاوہ اِن واقعات کو آج تیسرا دِن ہوا ہے۔

مُقدّس لُوقا....21:24

حال آں کہ صُورتِ حال احوال نے جلد ہی ختم ہو جانا تھا۔ وُہ مُردوں میں دوبارہ جی اُٹھا اور زندہ پِھر اُن کے بیچ تھا۔ وُہ جنھوں نے مسیحیت قُبُول کر لی تھی، اُنھوں نے اُن سے جنھوں نے یسُّوع خُداوند کو دوبارہ زندہ دیکھا، خُداوند کے بارے میں اطلاع پائی تو شش و پنج میں پڑ گئے کہ کون یقین کرے گا، لوگ تو طرح طرح کے سُوال کریں گے....

کوئی بتلاﺅ کہ ہم بتلائیں کیا

اُنھوں نے بس یہی کہا کہ وُہ تو پاک خُدا کا مُقدّس بیٹا ہے، کُچھ بھی کر سکتا ہے۔ وُہ اس کی تمجید کرتے تھے بطور اِبنِ خُدا۔ اِس کا کیا مطلب؟ .... وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بہُت جواز لوگوں پر منکشف ہوئے۔ اُس دور میں مصلحتِ ایزدی کا ادراک دُور از کار رفتہ بات نہِیں۔ خُدا کا بیٹا.... یہ نام، یہ صفت، یہ لاحقہ خُدا بیٹے کو بہُت مناسب لگا، موزُوں تھا عقیدے کے بہتر اِظہار اور ایمان کے اعلانِ عام کے لیے۔ یہی اندازِ تبلیغ اب تک جاری ہے۔

اوّل الذّکر بات تو یہی ہے کہ خُدا کا بیٹا کہلانا خُداوند یسُّوع مسیح کو خُود پسند تھا۔ اس نے اپنے آپ اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ یہ نام اُسے اچھّا لگا۔ وُہ خُوش ہو کے اُسے خُدا کا بیٹا کہنے لگے۔ انجیلِ مُقدّس میں بہُت سی جگہوں پر آیا ہے اور ہم کلامِ مُقدّس کی تلاوت کرنے والے گواہ ہیں کہ اِن آیاتِ مُبارکہ میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنے آپ کو خُدا باپ کا بیٹا ہی کہا۔ ان مواقع پر یسُّوع پاک نے ضرُور ایسا کہا جب لوگ اپنے آپ سے سُوال کرتے تھے یا مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح سے دریافت کرتے تھے کہ کیا واقعی، وُہ ہے خُدا کا بیٹا؟؟ تب اس نے تاکید سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا کہ خُدا اُس کا باپ ہے۔ جب اُس نے خُود کہہ دیا اور واضح طور پر کہا تو پِھر کون سی گُنجایش رہ گئی کہ تسلیم نہ کِیا جائے، وُہ خُدا کا بیٹا ہے۔ یہ غلط نہِیں، چوں کہ اُس نے کہا ہے، دُرُست ہے، وُہ اِبنِ خُدا ہے۔

شمعُون پطرس نے جواب میں کہا کہ تُو المسیح زِندہ خُدا کا بیٹا۔

مُقدّس متی....16:16

تب یسُّوع نے کہا اُسے چھوڑ دو۔ اُسے دِق کیوں کرتے ہو؟ اُس نے مُجھ سے بھلائی کا کام کِیا ہے۔

مُقدّس مرقس:61:14

اور دیکھ تُو حاملہ ہ وگی اور تیرا بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسُّوع رکھے گی۔

مُقدّس لُوقا....32:1

کہانی آگے بڑھتی ہے۔ خُدا کا بیٹا.... اس نام کے سِحر نے یہودیوں اور غیر اہلِ کتاب کو بھی، کہ جن کا تعلُّق اُس عہد کے گریگو رومن کلچر (یونانی و رومی ثقافت) سے تھا، اپنی طرف متوجِّہ کِیا۔ اہلِ یہُود نے جبخُداوند یسُّوع اقدس کانام سُناجس کے بارے میں پہلے کے نبی مسلسل بشارت دیتے آر ہے تھے کہ ایک مُنَجِّی آئے گا اور خُدا اِس تختہءدُنیا سے تمام برائیوں کا خاتمہ کر کے ہر طرف اچھّائیاں ہی اچھّائیاں پھیلا دے گا۔ تو یہُودیوں نے تصوُّرکی اپنی آنکھ سے دیکھا کہ ایک مخفی رکھے گئے، حیران کُن اور دِلچسپ بادشاہ کی آمد ہو چُکی ہے۔ یونانیوں کو اپنے دیوی دیوتاﺅں کی کہانیاں یاد آگئیں کیوں کہ اُن میں اکثر اُن کے خُداﺅں کے بیٹوں کا ذِکر چلتا ہی رہتا تھا اور ایسے دیوتاﺅں کے بھی قصّے مشہُور تھے جو اِنسانی جسم و صُورت بنا کر زمین پر آن اُترے۔ ظاہر ہے، پاک خُداوند خُدا کے بیٹے والے صیہُونی تصوُّر سے بھی بہُت ہٹ کے تھا اور اِس کی تصویر اُس چوکھٹے میں بھی فِٹ نہیں بیٹھتی تھی جو یونانی دیوتاﺅں کے بیٹوں والا چوکھٹا یونانیوں نے مخصوص کر رکھا تھا۔ یہُودی اور یُونانی دونوں نظریات کو قاعدے میں لانے کی ضرُورت تھی ۔لیکن ایک بات فوری طور سب کی سمجھ میں آگئی کہ جب ہمارےخُداوند یسُّوع مسیح اقدس کو جلال و رحمت والے خُدا کا بیٹا کہا جانے لگا تو واضح بات تھی کہ یسُّوع پاک کی ذات بڑی ہی خاص الخاص ذات تھی، بہُت ہی خاص۔ وُہ بنی آدم سے بہُت اُوپر کی کوئی ہستی تھا۔آدمی نظر آتا تھا پر آدمی نہ تھا۔ جب اس نے اپنے آپ کو اِبنِ آدم کہا تو اُس کی شان ذرا بھی نہ گھٹی، کیوںکہ وُہ تھا ہی اِبنِ خُدا اور یہ راز اُس کا مُقدّس ابّا جانتا تھا یا ابّے کا پوِتّر پُتّر، اِس لیے کہ دونوں میں یکتائی تھی۔ خُداوند پاک کے لیے نام کی سَن آف گاڈ والی ترکیب دُنیا کو آسانی سے ہضم نہ ہو سکتی تھی۔ مسیحیت کے لیے بہُت بڑا چیلنج سامنے آگیا جس سے عہدہ برآہونا ضرُوری تھا۔خُداوند یسُّوع نے تو آتے ہی یہُودیوں اور رُومیوں کی شدت کردینے والی اُس دور کی چکا چوند سب مات کر دی، دونوں سے منسوب سطوت و جبروت، کرّو فر، ان کی شان و شوکت، اور آب و تاب کی چھُٹی ہونے کی ابتدا ہو گئی۔ ان کے دیوتاﺅں کے بیٹوں کے غیر معمولی مجسمے اوندھے پڑنے لگے اور شبیہیں دُھندلانے لگیں۔ حقیقی خُدا کا سچّا بیٹا کون ہُوا؟ اِس پر مسیحیوں کی گواہی تھی کہ اُس کے سِوا اور کون ہو سکتا ہے جس کو نزاعی اور مباحثہ طلب صُورتِ حالات نے ہمیشہ اپنے حصار میں لیے رکھا، جس کی تضحیک کی گئی، تمسخر اُڑایا گیا، جس کو پکڑنے کے مقصد سے اس کا پیچھا کِیا گیا اور.... اور جسے مصلُوب کر دیا گیا۔وہ میرا آپ کا، سب کا یسُّوع مسیح ہے پاک خُدا باپ کا پاک خُدا بیٹا، خُداوند خُدا مُقدّس یسُّوع مسیح ۔ اس میں ذرا بھی شک نہِیں، نہ ہی حیران ہونے والی کوئی بات ہے بل کہ حقیقت ہی یہی ہے کہ خُداوند پاک کے زمانہ کے مقتدر لوگوں کا اس کے ساتھ گزارا ہی نہ تھا۔ وُہ اسے برداشت نہ کر سکے۔ اور خُدا کے بیٹے کو صلیب پر چڑھا دیا۔

اِسی غیظ و غضب کا سامنا اُس دم بھی کرنا پڑتا ہے جب پُکارنے والے اُسے خُدا کے نام سے پُکارتے ہیں۔بندوں کا مالک و آقا، خُداوند خُدا۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی بعثت سے پہلے یہی نام خُداﺅں کے خُدا کے لیے مستعمل تھا۔توریت پاک کے یونانی ترجمہ میں بھی اسماے الٰہی یہی تھے، خُدا، آقا۔ چوں کہ یونانیوں کے ہاں لارڈ کا ٹائٹل، یعنی خُدا کا نام، دیوی دیوتاﺅں کے لیے ہی وقف تھا، اِس لیے یہی وَجہ معلوم ہوتی ہے کہ روم کے شہنشاہ اپنے آپ کو خُدا کہلوانا پسند کرتے تھے اور دیوتاﺅں کی جس طرح عیادت کی جاتی ہے وُہی پروٹوکول وُہ اپنا بھی حق سمجھتے تھے، تمام رعایا اُن کے سامنے ناک، پیشانی رگڑ رہی ہوتی تھی۔ مسیحی ایسا نہِیں کرتے تھے، وُہ ہر بادشاہ کے نہِیں فقط ایک ہی خُدا کے پُجاری تھے، شہنشاہانِ روم کو مسیحیوں کی یہ حرکت،یہ گُستاخی، آدابِ شاہانہ کے لیے چیلنج دِکھائی دی اور اُنھوں نے یسُّوع پاک کے مسیحیوں کو چُن چُن کے شہید کرنا شُرُوع کر دیا۔ آخِری سانس بھی اُن کا اِس نعرے میں صَرف ہُوا.... یسُّوع ہی خُدا ہے!

ہماری سمجھ سے باہر مسیح کی اَسراری حقیقت

آغازِ زمانِ مسیح سے آج تک بھی اِس عقیدے کا لُبِّ لُباب بیان کر دینا دُرُست روایت ہے کہ ہم پیارے خُداوند پاک یسُّوع پر جو یقین رکھتے ہیں کہ وُہ خُدا کا بیٹا ہے، اِس بارے میں مختصراً مختصرا جتنے بھی حقائق ہیں وُہ آپ تک پہنچا دیں۔ جہاں تک موازنے کا تعلُّق ہے اِنسانی ذِہنی اشکال کے ساتھ، جن میں اِتنی طاقت ہے کہ کُچھ بھی ہو اس کی وضاحت کر سکتی ہیں اور جن کا نتیجہ ہوتا ہے اِنسانی قیاسات و تصوُّرات کا فروغ۔ بیّن طور پر یہاں اِظہارِ مطلب یُوں کِیا گیا ہے کہ پاک یسُّوع مسیح اور مُقدّس باپ دونوں در اصل ایک ہی ہیں، وُہی باپ ہے وُہی بیٹا....

دونوں کی شکل ایک ہے کِس کو خُدا کہوں باپ، بیٹا.... الگ الگ قیاس نہ کریں، یہ ایک ذات کے دو رُخ ہیں۔ دونوں ایک ہی ہیں، وُہی کے وُہی۔ اور یہ بھی ہے کہ دونوں کو ایک ہی ذات نہِیں مانا جاتا۔ یہ عقیدہ بھی نُمایاںطور ساتھ کے ساتھ چل رہا ہے جب کہ یہ امر بھی واضح ہے کہ حیاتِ ارضی میں خُدا باپ موجُود تھاخُداوند یسُّوع مسیح میں۔ انجیلِ مُقدّس لکھنے والوں نے بہتر طور اور بِلا کم و کاست انداز میں اپنا اِظہارِ بیان رہتی دُنیا تک کے لوگوں کے لیے امانت چھوڑا ہے۔ وُہ ہم سے بہتر ابلاغ کے مالک تھے۔جب وُہ کہتے ہیں.... خُدا۔ ان کی سدا یہی مُرادہوتی ہے کہ مُقدّس باپ، ابّا۔ خُداوند یسُّوع مسیح بیٹا، ممسوح....(المسیح)، خُدا کا حُکم بردار، مسیحیوں کے لیے خُدا کا عجب مشیر۔ مَحَبّت کا شہزادہ۔ وُہ خُداوند ہے، ربّ ہے۔ خُدا پاک باپ میںوحدت کے باوُجُود، مُقدّس یسُّوع مسیح کی علیحدہ ہی اپنی ہستی ہے۔ وہخُداوند یسُّوع مسیح کی عبادت کرتا ہے، اُسی سے دُعامانگتا ہے۔ ایک دفعہ تو اس مجسّم کلام نے ایسا بھی کلام کِیا کہ وُہ مسیحیوں کے لیے آج بھی.......

اِک مُعمّا ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

کیوں کہ وُہ تو آج بھی اِسے خُدا کا اپنا بیٹا ہونے کی تقدیس دیتے ہیں۔ اور اس نے ہی اپنے.... خُدا ابّا....کے بارے میں اپنے لوگوں کے ساتھ یہی کلام کِیا تھا کہ

خُدا باپ مُجھ سے بڑھ کر ارفع و عظیم ہے

”تُم سُن چکے ہو کہ مَیں نے تُم سے کہا کہ مَیں جاتا ہُوں اور کہ تُمھارے پاس پِھر آتا ہُوں۔ اگر تُم مُجھے پیار کرتے تو تُم خُوش ہوتے کہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہُوں، کیوں کہ باپ مُجھ سے بڑا ہے“۔

مُقدّس یوحنّا....28:14

ابنِ خُدا کہلانے میں کیا مضایقہ ہے! خُدا باپ اورخُداوند یسُّوع مسیح میں وسیع، بے مثل قریبی تعلُّق موجُود ہے۔ جو اِعتماد کا رِشتہ ہے، تخصیص والے تعلُّقات پر مبنی اور یک جان دو قالب والی کیفیت پر دال ہے۔ یہی تو وَجہ ہے خُداوند، خُدا کے نام پر، کُچھ بھی کر سکتا ہے۔ چُناں چہ جو یسُّوع کہتا اور کرتا ہے، خُدا باپ بھی وُہی ہی کہتا ، کرتا ہے۔ اور بنی نوعِ انسان کے لیے ہر مقصد اور اپنی مشیّتِ خُداوندی خُدا بیٹے میں پُوری کرتا ہے۔جیسے پہلے زمانے کے بادشاہ، امیر الاُمرا اپنے نائبین اور نُمایندگان کو بیٹا کہہ کے بھی پُکار لیتے تھے، خُدا اپنے یسُّوع مسیح خُداوند کو بیٹا کیوں نہ کہے۔ایسے ہی معانی، مفہُوم میں جن کے تحت خُداوند یسُّوع مسیح اپنے تمام ماننے والوں کو بھی اپنے اس مضبُوط و لازوال رِشتے میں باندھ لینا چاہتا ہے جو مُقدّس ترین خُدا باپ اور خُدا بیٹے والا رِشتہ تعلُّق ہے۔ پس اِبنِ خُدا ہونے کا جو بطن البطُون، جو جوہرِ خاص ہے، اس کا حُصُول کِسی بھی اِنسان کی بساط سے قطعاً باہر ہے۔ جو فرق میرا باپ اور تُمھارا باپ کہنے میں موجُود ہے اُسے کِسی طور رد نہِیں کِیا جا سکتا۔ لیکن ضرُوری ہے خُداوند کے قائم دائم رِشتہ میں کہ جو اُس کا خُدا باپ کے ساتھ مربُوط ہے تمام لوگوں کو چاہیے کہ خُداوند کی تائید و تقلید کریں، اُس کی اِطاعت و تابع فرمانی کریں تا کہ ان کی نجات پُختہ و یقینی ہو۔ مُقدّس رسُول پولوس نے صاف و کُشادہ دِلی سے بر ملا کہا کہ.... اِس لیے کہ مذہب کی رُو سے مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح میں تُم سب کے سب خُدا کے حُضُور اُس کے بچّے ہی ہو.......

کیوں کہ تُم سب کے سب اُس ایمان کے وسیلے سے خُدا کے فرزند ہو جو مسیح یسُّوع میں ہے۔

غلاطیوں....26:3

اورجب کبھی ایسا ہُوا کہ کِسی نے یہ کہہ کر خُداوند یسُّوع مسیح پر بُہتان باندھا کہ تُو نے دستُورِ خُداوندی و مشیّتِ ایزدی کے برعکس عمل کِیا تو اُس نے اپنے دفاع میں ہمیشہ یہی کہا کہ پہلے سے ہی مُقدّس مزامیر میں لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے:

”یسُّوع نے اُنھیں جواب دیا کہ کیا تُمھاری شریعت میں یہ نہیں لِکھّا ہے کہ مَیں نے کہا: تُم سب خُدا ہو“۔

مُقدّس یوحنّا....34:10

اُس نے یُوسُف میں شہادت مُقرّر کِیا۔ جب وہ مُلکِ مصر سے باہر نکلا۔ مَیںنے ایک ایسی زُبان سُنی جس سے مَیں واقف نہ تھا۔

مزامیر....مزمور81 آیت6

(مزمور از آساف)

اِبنِ خُدا....خُداوند یسُّوع مسیح کے اِسم مُبارک کا یہ لاحقہ، اِس سب کُچھ کی ضرُوری وضاحت خُود ہی کر دیتا ہے جو کُچھ ہم خُداوند کے بارے میں سوچتے، گُمان کرتے ہیں۔ بعینہ اُسی دَم، یہ خیال کہ اِس سے سِوا بھی تو کوئی نام ہو سکتا ہے، اِسی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس کا اِدراک ہماری ذِہنی اِستعداد سے ورے ہے۔ مسیح یسُّوع مُقدّس کی اَسراری حقیقت ہماری سمجھ بُوجھ سے قطعی باہر ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اِبنِ خُدا کوئی اور ہو ہی نہِیں سکتا، سِواے اُس اِبنِ آدم کے جو یسُّوع پاک ہے، یسُّوع المسیح، جس نے ہماری مُکتی کے لیے صلیب پر مصلُوب ہو کے صلیب کی شان بڑھا دی۔ اِس سُوال کا ذِہنوں میں اُٹھنا کُچھ عجب بات نہِیں کہ اِن دِنوں، زمانِ موجُود میں کِسی کو خُدا کے بیٹے کے طور پر یاد کرنا بہُت سی غلط فہمیاں، جھگڑے، تنازعے نہِیں کھڑے کردے گا؟اور یہ بھی کہ ایسا تو ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے جب بھی کِسی نے ایسی تعلُّقداری کہ جس کی دُوسری مثال نہ کہِیں تھی، نہ ہے، نہ کبھی ہوگی، اِس کے بارے میں تشریح و تصریح کرنے کی کوشِش کی اُسے اُلٹے ہاتھوں لیا گیا۔ بے شک یہ حقیقت ہے اور غیر مسیحیوں کو یہ حقیقت بارگُذرتی ہے یہ اِس سے بڑی حقیقت ہے۔ پہلا مرحلہ یہی بنتا ہے کہ فہم کی اُس غلطی کا تدارک کِیا جائے جو لوگوں کے جذبات کو مشتعل بھی کر سکتی ہے مگر اِس کا طریقہ یہ نہِیں کہ معنی خیز نام کو ہی پُکارنے سے اپنے لب سِی لیں۔ یہاں ضرُورت ہے کہ مُکالمہ سے مطلب براری کی جائے، لوگوں کو سمجھایا جائے کہ اِبنِ خُدا کہنے سے کیا مُراد ہے۔کوئی سُنے گا تو اِس کے پلّے بھی کُچھ پڑے گا۔ خُداوند یسُّوع کو اِبنِ خُدا کہنا، اِس کہنے کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ صبر و ضبط سے ایک بار کوئی سُن تو لے۔ اگر کِسی کو اِس کی گہرائی میں جانے کی جُستجُو ہی نہِیں، تو ایسے شخص کو شکایت گُزار بننا روا ہی نہِیں۔ دُوسرے کی بات سُننا چاہیے، سمجھنا چاہیے، ذِہن اگر قُبُول نہ کرے تب اِنکار کی صُورت نکلتی ہے۔ کوئی بات نہِیں، آپ کا عقیدہ آپ کے ساتھ، ہمارا ہمارے ساتھ۔ لیکن ہمیں سب سے محبت ہے، سب کے ساتھ تعلُّقات عزیز ہیں۔ ہم چاہتے ہیں غلط اندازوں، کج فہمیوں کا ازالہ کریں اور مسلسل کوشِش میں رہیں کہ اپنے ذِہنوں سے کبھی اوجھل نہ ہونے دیں کہ وُہ جو حیرت انگیز حد تک غیر معمُولی تصوُّرات و نظریات ہیں کہ جن پر یقین ڈانواں ڈول ہو ہو جاتا ہے، جیسے اِس بیان میں یہ بات کہ وُہ اِنسان جو یسُّوع ناصری ہے وُہ متجسّم بیٹا ہے خُدا ایسا کہ وُہ سچّا خُدا اور سچّا اِنسان تھا اور ہمیشہ سے خُدا ہے اور متجسّد ہونے کے وقت سے اِنسان بھی ہے۔ چُناں چہ اِس سے بہتر اُس کا نام جو غلط فہمیوں کے اِحتمال سے برّی ہو آج تک کوئی نہ تلاش کر سکا۔ خُدا کا بیٹا دُوسرا مُقدّس اقنُوم ہے اقانیمِ ثلاثہ میں۔ یہی نام خُداوند اقدس کو واجب ہے۔ اِسی لیے مغالطوں سے بچاو، رفعِ شر کے لیے ہم اپنی دُعاﺅں میں اپنے عقیدہ کے مُطابِق یوں کہتے ہیں....

میراخُداوند یسُّوع مسیح پر ایمان ہے جو خُدا کا اکلوتابیٹا ہے......

مُقدّس کنواری ماں مریم کے بطن سے پیدا ہُوا

کلام متجسّم ہُوا

ہماری نُصرت کے لیے بائبل مُقدّس میں عہدِ جدید موجُود ہے۔ مُقدّس رسُول یوحنّا کی انجیل کے مُقدّمہ میں خُداوندپاک یسُّوع مسیح کے لیے کہا گیا ہے کہ کلام ہے جو متجسّد ہُوا۔ یعنی خُدا کے ازلی کلمہ نے اِنسان کا جسم اِختیار کِیا۔

اور کلمہ مُتجسّد ہُوا اور ہم میں سکُونت پذیر ہُوا اور ہم نے اُس کا جلال دیکھا باپ کے وحید کا جلال۔ فضل اور سچّائی سے معمُور۔

مُقدّس یوحنّا....14:1

وُہی کا وُہی ہولناک قولِ متناقض، خُدا کے بیٹے کے نام سے نتھّی یہاں بھی موجُود ہے: مصلُوب یسُّوع پاک اِبنِ خُدا ہے۔ خُدا کا کلمہ ہے جس کی تجسیم ہُوئی۔ یہ ناصرت کا باسی اِنسان یسُّوع ناصری ہے، مصلُوب ہونا جس کی تقدیر تھی، یہ تھی مسیح کے بھیدوں کی کہانی جو اِس سے آگے بھی جاتی ہے مگر ہماری عقل کی رسائی بس یہِیں تک ہے۔ آگے سب خُدا کو معلُوم ہے۔ جو کُل کائنات کا خالق، مالک، آقا، خُدا ہے۔ سب سے ارفع، سب سے اعلیٰ ہے۔ اپنی سرکش خلقت کے سامنے اُس نے اپنے رازوں سے پردہ اُٹھا دیا، اپنا دِل کھول کے سب کے سامنے رکھ دیا۔ وُہ اپنے بنائے اِنسانوں سے بہُت پیار کرتا ہے۔ یہ سب کُچھ ناقابلِ یقین بھی تو نہِیں۔ وُہ تاریخ کا حوالہ بن کر اِس زمین پر رہنے کو آگیا، اِنسانوں کے بِیچ، آدمیوں کے ساتھ زِیست کرنے کے لیے۔ ہم بندے بھی اس کی زِندگانی میں شریک ہو گئے لیکن وُہ رمز اُس کی وَہِیں قائم رہی کہ زمین اُس کی بادشاہت میں ہے، وُہ زمین پر سب بسنے والوں کا خُدا ہے، خُداے لم یزال۔ اپنے نبیوں کی معرفت کم کم اور انداز ہاے مُختلف سے، اس نے ہمارے بزُرگوں سے کلام کِیا اور پِھر ایک وقت وُہ بھی آگیا کہ وُہ اپنے بیٹے کے ذریعے ہم اِنسانوں سے متکلّم ہُوا۔

عبرانیوں....1:1اور 2

خُدا نے ایسی صُورت اِختیار کر لی کہ وہ ہُوبہ ہُو اِنسان نظر آنے لگا اور وُہ بھی غُلام اِنسان۔ جب وُہ بن ہی اِنسان گیا تو پِھر تو موت نے بھی اُس پر حاوی ہونا تھا، سو ہُوئی۔ کیوں کہ اس نے اِسے حاوی ہو لینے دیا۔ حتّٰی کہ صلیب پر بھی موت اُس نے گُوارا کر لی!

فیلپیوں....6:2تا8

عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو اور زمین پر مَحَبّت کرنے والے نیک اِرادے کے آدمیوں کے لیے امن! !آمین

اب آتے ہیں مذہب کے بارے میں کیے گئے سُوال کی طرف۔ توجُّہ طلب نُقطہ یہ ہے کہ ہم فیصلہ کرنے والے بھلا کون ہوتے ہیں کہ کون سا مذہب حق سچ پر اور دُرُست ہے، اصل بات تو یہ دیکھنے کی ہے سُوال کنندگان نےخُداوند یسُّوع مسیح کے دعوے پر کیا ردِّ عمل دیا۔ مُقدّس رسُول یوحنّا کی انجیل پاک میںخُداوند خُدا اپنے بارے میں کہتا ہے کہ دُنیا میں روشنی اس کے دم سے ہے، اُس کے نُور سے دُنیا جگمگ جگمگ ہو رہی ہے، آگے فرمایا کہ، جو میرے ہمرکاب ہُوا اور وُہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہِیں مارے گا، زِندگی کی روشنی، اِس کی چمک دمک اُس کا مقدّر بنے گی۔

یسُّوع نے پِھر اُن اُن سے بات کر کے کہا کہ دُنیا کا نُور مَیں نہیںہُوں۔جو میری پیروی کرے گا وہ تاریکی میں نہیں چلے گا بل کہ زندگی کا نُور پائے گا۔

حوالہ....مُقدّس یوحنّا....12:8 ویں آیت

پیارےخُداوند یسُّوع مسیح نے کہا تھا.... مَیں راستہ ہُوں، سچّائی کا راستہ، منوّر راستہ۔ مُقدّس خُدا باپ تک جس نے پہنچنا ہو وُہ میرے بغیر تو وہاں نہِیں پہنچ سکتا.... اِس لیے کہ راستہ تو مَیں ہُوں، حق سچ کا روشن راستہ اور درخشاں زِندگی۔

حوالہ....مُقدّس یوحنّا....6:14

اِسی مقصد براری کے لیے مَیں نے جنم لیا، اِسی کے لیے ہی دُنیا میں میرا ورُود ہُوا تا کہ حق کی تصدیق ہو، مسیحی اِس کی گواہی دیں۔ جِس کِسی نے اصل سچّائی کو، حق کو پکّا پکّا اپنا لیا وُہ میری آواز پر کان دھرتا ہے،

پیلاطُس نے اُس سے کہا کہ حق کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ پِھر یہُودیوں کے پاس باہر گیا اور اُن سے کہا مَیں اُس میں کُچھ قُصُور نہیں پاتا۔

حوالہ.... مُقدّس یوحنّا....37:18

حق سچ کی بات چل پڑی ہے تو آپ کو بتاتے چلیں کہ کلیسیا کا یہ دعویٰ اور عہدِ نبوی ہے کہ خُدا (مُقدّس تثلیث میں پہلا پہلا مُقدّس اقنُوم)، نسلِ اِنسانی دُوسرے مُقدّس اقنُوم کا اس سے گہرا اور قریبی تعلُّق واسطہ رہا) اور کائنات (تیسرے اقدس اقنُوم نے اس کو زِندگی اور رُوئیدگی بخشی اور دُوسرے مُقدّس اقنُوم کو پہلے مُقدّس اقنُوم میں اس کی بادشاہت ملی).... اِن تینوں سے مُتعلّقہ جو حق سچ ہے.... وہ ہے، ہمارا خُداوند پاک یسُّوع مسیح۔

 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?