:سُوال نمبر51
آپ کی مُقدّس اناجیل میں تحمل و بُردباری، اخوّت اور برادرانہ محبت بطور حقِّ ہمسایگی کے سلسلے میں بھی کچھ وارد ہُوا ہے؟ اِس بارے میں اگر جانکاری عطا ہو تو مہربانی ہو گی۔
جواب:۔ تفصیلات میں جائے بغیر اگر موٹے موٹے حقائق کو سامنے رکھیں تو معلُوم ہوگا کہ چاروں انجیلیں مُقدّس کتابیں ہیں اور توضیح کرتی ہیں بنی نوعِ انسان سے خُداوند قُدُّوس کی یقینی، ابدی محبت کی جو خُداوند یسُّوع مسیح کی مُبارک زِندگی اور اس مُکتی داتا کی تعلیمات سے سب پر عیاں ہُوئی۔ صفتِ برداشت کو معمُول بنانے، ہمساےے سے محبت اور برادرانہ سُلُوک کا رویّہ اپنانے پر یہی مَحَبّتِ خُداوندی ہی تو ہے جو مسیحیوں کو آمادہ کرتی ہے اور اس پر عمل کا حوصلہ کرتی ہے۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کے ''پہاڑی وعظ'' پر غور تو کیجیے گا۔
حوالہ۔۔۔۔۔۔مقدّس متی۔۔۔۔۔۔ابواب5تا7
یہ خطبہء جبل معروف اختصار سمجھیے خُداوند پاک کی دُنیاوی زِندگی کا اور ایک طرح سے مجموعہ سمجھیے اُس کی اقدس تعلیمات کا۔ کتنے ہی ایسے حوالہ جات ہیں ہم جن کی مُقدّس انجیلوں سے سَنَد لا سکتے ہیں، ان میں سے چند نمایاں اقتباسات کی تلاوت آپ پر بہُت کچھ واضح کر دے گی:
حوالہ1قرنتیوں۔۔۔۔۔۔باب13
اور رومیوں۔۔۔۔۔۔باب9:12تا21آیات
چاہے کتنی ہی در فنطنیاں لگانے کا مَیں ماہر بن جاؤں اور عوام و خواص کے سامنے بڑی ملکوتی اور علمی و ادبی بشری زبانوں میں تقریریں اور وعظ کرتا پھروں، اگر مجھ میں مَحَبّت کا ذرّہ بھی موجُود نہیں، تو لوگوں کے کانوں میں میری آواز نہیں کِسی گھڑیال کی صداے بازگشت یا جھنجھنانے والی جھانجھ کی تھالیوں کے ٹکراو کا شور گونجتا رہے گا۔ اگر مجھے پیشگوئی کا ملکہ یا نبوّت کی عطا نصیب ہو، علم و حکمت اور تمام اَسرار کی تہہ تک اُتر جانے کی صلاحیت بخشی گئی ہو، بے شک کامل ایمان کی نعمت ملی ہو جس کے طُفیل پہاڑوںکو اپنی جگہ سے سرکاتا پھروں مگر۔۔۔۔۔۔ مگر محبت کی دولت سے محروم رکھا گیا ہو،پِھر میری کیا آن کیا بان اور کیا شان؟ سب خالی پِیلی۔ اگر مَیں اپنا سب کچھ ، سب مال متاع، دھن دولت راہِ خُدا میں دان کر دوں، حتّٰی کہ دھن کے ساتھ تن بھی وار دُوں اور اس پر بڑا اِتراتا بھی پھروں تو کیا؟ بات تو من کی ہے، اور من گھر ہے مَحَبّت کا، مَحَبّت ہی نہ ہو پلّے، من تو پِھر خون صاف کرنے کی مشین ہی ہُوا نا۔ سب کچھ دے دُوں، خُداوند یسُّوع مسیح کے بندوں کے قدموں پر مَحَبّت ڈھیر نہ کر سکوں یہاں ڈنڈی مار جاؤں، پِھر تو نہ مَیں دِین کا رہا نہ دُنیا کا۔
مَحَبّت میں برداشت ہے، استقلال ہے، صبر ہے، مَحَبّت میں شفقت ہے، مروّت ہے، لُطف و عنایت ہے۔مَحَبّت میں حسد نہیں، عناد نہیں، نہ ہی بد گُمانیاں ہیں جو اسے داغ داغ کریں۔ مَحَبّت عقیدے کو سختی سے قائم رکھتی ہے۔ اِس میں تصنّع نہیں، غُرُور نہیں، طمطراق نہیں، نہ بدتمیزی اس میں نہ بے ادبی و بیہودگی۔ نہ طمع نہ لالچ نہ مفاد پرستی۔ محبت نہ خود غرض، نہ زُود حِسّ نہ خُود پرست۔ بے وقعتی پر کُڑھتی نہیں اور نہ ظلم و تعدّی اور گُناہ پر یہ کہ پھُولے نہ سمائے، البتہ سچّائی، دیانت و صداقت پر جھُوم جھُوم اُٹھتی ہے ۔ وفا ہی وفا ہے، وفاداروں پر ریشہ ختمی ہوتی رہتی ہے۔ شک اور وسوسوں کو محب کے ذِہن پر حملہ نہیں کرنے دیتی نہ خُود ان کا اپمان کرتی ہے۔ اُمِّیدپر پلتی، پروان چڑھتی ہے، اُمیدیں بانٹتی، آشائیں جوان رکھتی ہے۔ صابر اور آس پَرور ہے، رنگ، نسل، مذہب، امیر، غریب کچھ نہیں دیکھتی، اِس لیے کہتے ہیں مَحَبّت اندھی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایسے امتیازات برتے، اُس کے پاس سے اُٹھتی ہے اور ڈنگوری ٹیکتی دُور چلی جاتی ہے۔ مخلص اور صادق لوگوں کا ساتھ نبھاتی ہے، ہچکچاتی ذرا بھی نہیں۔ نبوّتیں ہوں تو چِھن سکتی ہیں۔ بدشگونیاں ہَوَا میں اُڑا دیتی ہے۔ اگر کوئی باتیں بنائے چُپ کروا دیتی ہے، بڑھ بڑھ کے بولے بولتیاں بند کروا دیتی ہے۔ اگر کوئی تعلّی سے کام لے، علمیت پر گھمنڈ کرے تو محبت کے سامنے آتے ہی اُس کے سارے پول کھُل جاتے ہیں، گھِگّی بندھ جاتی ہے اور وُہ لیکن ویکن، در اصل، مَیں، اگرچہ، چناں چہ کرنے لگتا ہے۔ گز گز بھر کی زبانوں والوں کی زبانیں نہیں کاٹتی، اُن کے مُنہ بند کر دیتی ہے کیوں کہ مَحَبّت سانچ ہے، جس کو آنچ نہیں۔ ہم بھی تو عقلِ کُل نہیں، ہمارا عِلم ناقص، پیشگوئیاں ناقص، اگر ہوں تو ہماری نبوّتیں ناقص، عِلم ادُھورے مگر وُہ جو کامل ہے وُہ جب آئے گا سب ادُھورے کام مُکمَّل ہو جائیں گے۔ ناتمامی کہِیں نظر بھی نہ آئے گی۔ جب مَیں ابھی بچّہ ہی تھا اور بچّوں کی بولی بولتا تھا۔ سُوچ میں بھی بچپنا تھا، بچّوں سی ہی حُجّتیں ہوتی تھیں۔ جب ہوشمند ہُوا، بچکانہ حرکتیں، عادتیں، باتیں بھُلادیں مَیں نے۔ اب۔۔۔۔۔۔اب نظر کچھ دُھندلا سی گئی ہے۔ آئینہ صاف ہے مگر ہمیں صاف دِکھائی نہیں دیتا۔ فی الحال مَیں ناقِصُ العِلم ہُوں، مانا، مگر اُس وقت۔۔۔۔۔۔ جب وُہ خاص وقت آئے گا، جو ہے، جیسا ہے ویساہی دِکھائی دینے لگے گا، رُوبرُو ہو گا نا۔ اُس وقت میرا عِلم کامل ہو گا اور میری شخصیّت معرُوف و مشہُور۔ بھلے کچھ بھی رہے، نہ رہے۔ ایمان، اُمِّید اور مَحَبّت ضرُور رہے، سمجھوں گا خسارے کا سودا نہیں کِیا۔ اِن تینوں میں سے خُداوند خُدا کی سب سے عظیم نعمت مَحَبّت ہے جسے پا لیا تو سمجھیے سب کچھ پا لیا۔
حوالہ۔۔۔۔۔۔1قرنتیوں۔۔۔۔۔۔باب13نغمہء محبت
محبت کھری ہے، مخلص ہے، بے ریا ہے، اسے ایسا ہی رہنے دو۔ بُرائی کو دُشمن جانو، اس کے خلاف نفرت پالو، اچھّائی کو گلے کا ہار بنا لو۔ باہمی مِہر و اُلفت کے ساتھ ایک دُوسرے سے پیش آؤ، آپس میں چاہ کو راہ دو۔ تکریم و تحریم دینے میں اِک دُوجے پر سبقت لے جانے کی کوشِش کرو۔ زُہد و عبادت میں لگے رہو۔ مقصُود و مطلُوبِ مُقدّسین کو پورا کرنے میں دُوسروں کے ساتھ خود بھی حصّہ لو۔ مہمان نوازی اختیار کرو۔ دُعا دو اُنھیں جنھوں نے طرح طرح سے تمھیں ستایا، ایذائیں دیں۔ خُداوند پاک کی برکات مانگو اُن کے لیے اور دُعا کرو خُداوند اُنھیں ہدایت دے۔ بد دُعا نہ دو۔ خُوشیوں کے شادیانے بجانے والوں کے ساتھ خُوشیاں مناؤ، جو رو رہا ہو اُس کے غموں میں شریک ہو جاؤ، اُسے تنہا نہ چھوڑو۔ سعیِ پیہم، سرگرمی اور اپنے جذبے کو سُست نہ پڑنے دو۔ ولولے کو تازہ رکّھو، پُرشوق و پُرجوش رہو۔ خُداوندِ خُدا کی اطاعت و بندگی کرتے رہو۔ اُمِّیدمیں شادمانی حاصل کرو۔ دُکھ، درد، مصیبت میں ثابت قدم رہو۔ ایک دُوسرے کا احترام کرو، لحاظ ملحُوظِ خاطر رکّھو، جو توقیر اپنے لیے چاہتے ہو، ویسی دُوسروں کو بھی تو دو۔ کِسی گھمنڈمیں مت رہو، مُفلس و عاجز بندوں کے رفیق بنو۔ بزعمِ خُود افلاطُون بننے سے گُریز کرو۔ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے مت دو۔ لوگوں کی نگاہوں میں جو عالی ظرف ہوں، اُن شرفا کی تم بھی قدر کرو۔ لوگوں کے حساب سے جو اچھّی باتیں ہیں، اُنھیں تم بھی اپناؤ۔ حتی الامکان اپنے تئیں تو سب کے ساتھ امن، سکُون اور شانتی سے رہو۔ خلقت میں آسانیاں بانٹو، ایسے کام کرو کہ وُہ تم سے پیار کرے۔ آتشِ انتقام میں مت جلو، انتقام کی آگ والے غُصّہ کو ٹھنڈا ہونے کا موقع دو، بس میں ہو تو بُجھا ہی دو شُعلوں کو ہَوَا نہ دو، ختم کر دو۔بائبل مُقدّس میں لِکھّا ہے، خُداوندِ پاک یسُّوع مسیح نے فرمایا:
''انتقام مجھ پہ چھوڑ دو، اس کا بدلہ مَیں چُکاؤں گا۔پس تم پر لازم ہے اگر تمھارا دُشمن بھُوکا ہے، اُسے کھانا کھلاؤ۔ غنیم پیاسا ہے، اُس کو پیاس بُجھانے کے لیے کچھ دو۔ تم ایسا کرو گے تو تمھارا ممنُون ہو کر تمام عُمر تمھارے اِس احسان کی آگ میں برابر سُلگتا رہے گا۔اُس کا ضمیر اُسے تڑپائے گا۔ بدی کو اپنے اُوپر حاوی نہ ہونے دو، بدی کو نیکیوں سے زیر کرو''۔
حوالہ۔۔۔۔۔۔رومیوں۔۔۔۔۔۔9:12تا21 آیت