:سُوال نمبر80
بائبل مُقدّس سے روایت ہے کہ:
''عورتیں اجتماع میں چُپ رہیں کیوں کہ اُنھیں بولنے کی اجازت نہیں بل کہ چاہیے کہ تابع رہیں کیوں کہ شریعت بھی ایسا ہی کہتی ہے۔ اور اگر وُہ کُچھ سیکھنا چاہیں تو گھر میں اپنے شوہروں سے پُوچھیں کیوں کہ یہ شرم کی بات ہے کہ عورت اجتماع میں بولے''۔
1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔34:14، 35
ایک طرف چرچ کے اجتماع میں بولنے سے منع کِیا گیا ہے، اب تبلیغ کے لیے خواتین نے بھی یہ خدمت سنبھال رکّھی ہے۔ اِتنی تبدیل شُدہ صُورتِ حالات میں ہم بائبل کو کیا مقام دیں؟
جواب:۔ عورت اور مرد کی پیدایش برابر کی سطح پر ہُوئی۔ خُداوندِ قُدُّوس نے انھیں اپنی صُورت پر تخلیق کِیا یعنی اپنے مانند پیدا کِیا:
''اور خُدا نے انسان کو اپنی صُورت پر پیدا کِیا، خُدا کی صُورت پر اُس نے اُس کو پیدا کِیا۔ نر و ناری ان کو پیدا کِیا''۔
تکوین۔۔۔۔۔۔27:1
ان میں کوئی اُونچ نیچ نہیں۔ اِس لیے خواتین کے لیے کِسی قسم کا کوئی فرق قائم کرنا، بھلے وُہ انسانی تاریخِ تہذیب و ثقافت میں مُدّتوں سے رائج چلا آ رہا ہو، حقیقت یہی ہے کہ ایسے فرق و امتیازات خالقِ مخلوقات کی اپنی مرضی و منشا کے خلاف جانے والی بات ہے۔ عورت اور مرد کی مساوی قدر و قیمت، دونوں میں برابری خُدا خالق و مالک کے دُنیا اور مُقدّس کلیسیا پر اپنے اظہار کی ابدی سچّائی کا عطیہ ہے جو اس کا انسان پر احسانِ عظیم ترین ہے۔ پاک خُداوند کو تمجید ہو! آمین۔
اپنے مُبارک عمل کے ذریعے خُداوند یسُّوع مسیح اقدس نے خاتُون کی عِزّتِ نفس اور کِسی سے کم تر نہ ہونے کی ساری صُورتِ حالات صاف اور واضح طور پر سب پر عیاں کر دی۔ مردوں کی طرح خواتین بھی خُداوند پاک کی دعوت اور اس کے وعظ میں شرکت کرتی رہیں، اس کے افعال و اعمال کا حصّہ رہیں، اور انسانیت سے اُلفت و کرم میں مردوں کی طرح یسُّوع مسیح پاک سے فیض اور فضل پاتی رہیں۔ اس نے خواتین کو بھی یہ اعزاز بخشا کہ اُس کے دعوتِ دِین و عمل میںنکلنے والے قافلے میں وُہ بھی اُس کی ہمراہی کریں، وُہ اسی کی پیروی کرنے والی مومنہ بنیں۔ حد یہ ہے کہ خُداوند یسُّوع مسیح نے ان کی مُعاونت اور خِدمت کو قُبُولیت کا شرف بخشا:
''اور بعد میں وُہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں جا کر وعظ کرتا۔ اور خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری دیتا تھا اور وُہ بارہ اُس کے ساتھ تھے۔ اور کئی عورتیں بھی جو بَد رُوحوں اور بیماریوں سے شِفایاب ہُوئی تھیںیعنی مریم جو مَجَدلی کہلاتی ہے جس میں سے سات رُوحیں نکلی تھیں اور حنّہ، تیسرو دیس کے دیوان کُوزیٰ کی بیوی۔ اور سُوسن، اور بہتیری اور بھی جو اپنے مال سے اُن کی خِدمت کرتی تھیں''۔
مُقدّس لُوقا۔۔۔۔۔۔1:8تا 3
اور مُعاشرے میں نفرت کی زد پر رکھّی گئی ایک فاحشہ عورت کا مُقدّس خُداوندیسُّوع مسیح نے خُود دِفاع کِیا:
''فریسیوں سے کِسی نے اُسے دعوت دی کہ میرے ہاں کھانا کھا۔ اور وُہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔ اور دیکھو! اُس شہر میں ایک گنہگار عورت تھی جو یہ معلُوم کرکے کہ وُہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے سنگِ مر مر کے عطر دان میں عِطر لائی اور اُس کے پاؤں کے پاس روتی ہُوئی پیچھے کھڑی ہو کر آنسُوؤں سے اُس کے پاؤں بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے پُوچھ کر اُس کے پاؤں کو مکرّر چُوما اور عطر ملا۔ اوروہ فریسی جِس نے اُس کی دعوت کی تھی، یہ دیکھ کر اپنے دِل میں کہنے لگا کہ اگر یہ نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چھُوتی ہے یہ کون اور کیسی عورت ہے، یعنی یہ گنہگار ہے۔ اور یسُّوع نے مخاطب ہو کر اُس سے کہا کہ اے شمعون! مجھے تُجھ سے کُچھ کہنا ہے۔ اُس نے کہا، اے اُستاد! فرما۔۔۔۔۔۔
کِسی ساہُوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا دُوسرا پچاس کا۔ جب اُن کو ادا کرنے کا مقدُور نہ رہا تو اُس نے دونوں کو بخش دیا۔
پس ان میں کون اُس کو زیادہ پیار کرے گا۔
شمعون نے جواب میں کہا، میری دانست میں وُہ جِسے اُس نے زیادہ بخشا۔
تب اُس نے اُس سے کہا، تُو نے ٹھیک فیصلہ کِیا ہے اور اُس عورت کی طرف مُنہ پھیر کر اُس نے شمعون سے کہا، کیا تُو اس عورت کو دیکھتا ہے؟ مَیں تیرے گھر میں آیا۔ تُونے پاؤں کے لیے پانی نہ دیا مگر اُس نے میرے پاؤں آنسُوؤں سے بھگو دیے اور اپنے بالوں سے پُونچھے۔ تُو نے مجھ کو نہ چُوما لیکن اُس نے جب سے کہ مَیں اندر آیا ہُوں میرے پاؤں چُومنے سے باز نہ رہی۔ تُو نے میرے سر پر تیل نہ مَلا مگر اِس نے میرے پاؤں پر عطر مَلا ہے۔ اِسی لیے مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ اس کے گُناہ جو بہُت ہیں مُعاف ہو گئے کیوں کہ اِس نے بہُت پیار کِیا ہے۔
مگر جِس کو تھوڑا مُعاف کِیا گیا ہے، وُہ تھوڑا پیار کرتا ہے۔ اور اُس عورت سے کہا کہ تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے۔ اس پر ہم نوا اپنے دِل میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے جو گُناہ بھی مُعاف کرتا ہے۔ مگر اُس نے عورت سے کہا، تیرے ایمان نے تُجھے بچا لیا ہے۔ سلامت چلی جا''۔
مُقدّس لُوقا۔۔۔۔۔۔36:7تا 50
مُعاشرت کی، اس سماج کی جو حُدُود مقرر تھیں پاک خُداوند یسُّوع مسیح سب کی سب پھلانگ گیا۔ اِس لیے کہ وُہ تو مُعاشرتی، سماجی، دِینی، ثقافتی ضوابط و حُدُود خُود مقرر کرنے اور ان پر کُل عالَمِ انسانیت کو چلانے کے لیے زمین پر اُترا تھا۔
''اِتنے میں اُس کے شاگرد آگئے اور متعجّب ہُوئے کہ وُہ عورت سے باتیں کر رہا ہے۔مگر کِسی نے نہ کہا کہ تُو کیا چاہتا ہے؟ یا اُس سے کیوں باتیں کرتا ہے؟''
مُقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔27:4
وہ مذہب کے نام پر مروّج غلط معاشرتی رسوم کے خاتمے کے لیے آیا تھا۔
''اور ایک عورت جِس کا بارہ برس سے خُون جاری تھا اور جِس نے کئی اِطبّا سے بڑی تکلیف اُٹھا کر اور اپنا سب مال خرچ کر کے کُچھ فائدہ حاصل نہ کِیا تھا بل کہ بدتر ہو گئی تھی۔ یسُّوع کی خبر سُن کر ہُجُوم میں اُس کے پیچھے سے آئی اور اُس کی پوشاک کو چھُوا کیوں کہ وُہ کہتی تھی کہ اگر مَیں صِرف اس پوشاک ہی کو چھُو لُوں گی تو اچھّی ہو جاؤں گی۔
اور اُسی دم اُس کا اِدرارِ خُون بند ہو گیا۔ اور اُس نے اپنے بدن میں معلُوم کِیا کہ مَیں نے اس تکلیف سے خلاصی پائی۔
تب یسُّوع نے فوراً از خُود جان کر کہ مُجھ میں سے قُوّت نکلی ہُجُوم کی طرف پِھر کر کہا: میرے کپڑوں کو کِس نے چھُوا؟
اُس کے شاگردوں نے اُس سے کہا: تُو دیکھتا ہے کہ ہُجُوم تُجھ پر گِرا پڑتا ہے اور تُو کہتا ہے کہ مجھے کِس نے چھُوا؟
تب اُس نے نظر دوڑائی تا کہ اُس کو دیکھے جِس نے یہ کام کِیا تھا۔
تب عورت یہ جان کر کہ مجھ میں کیا اثر ہُوا، ڈرتی اور کانپتی ہُوئی آئی اور اُس کے آگے گِر پڑی اور ساری حقیقت اُس سے بیان کی۔
تب اُس نے اُس سے کہا: بیٹی تیرے ایمان نے تُجھے خُلاصی دی۔ سلامت چلی جا اور اپنی تکلیف سے بچی رہ''۔
مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔25:5تا 34
کلیسیا نے اپنے آغاز سے ہی مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے مضبُوط اِرادے کی تعمیل شُرُوع کر دی کیوں کہ وُہ بہُت زور دے کر کہتا تھا کہ عورت کا بھی وُہی مقام و مرتبہ ہے اور وُہ بھی اتنی ہی پُروقار ہے، جتنا کہ مرد۔ رِیتوں رواجوں کی پابندی کے جبر سے جو اُس زمانے میں عورتوں پر توڑا جاتا تھا، اس سے عورت کو آزادی دِلانے کے کام پر بڑی سنجیدگی سے عمل کِیا جانا ضرُوری ہو گیا۔ مُقدّس رسول پولوس نے تو بپتسمہ سے ہی ابتدا کرنے کی ٹھانی۔ مُدّتِ مدید سے چلے آ رہے تفاوت پر قابُو پانے کے لیے اُس کے نزدِیک یہ اچھّی ترکیب تھی۔ بپتسمہ کی سعادت پانے والے خواتین و حضرات پاک خُداوند کی واحدت میں ایک ہو چکے ہوتے ہیں۔ نہ کوئی یہُودی رہتا ہے نہ یُونانی، نہ آقا نہ غُلام، نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بپتسمہ لینے والا مرد ہے یا عورت، کیوں کہ مُقدّس بپتسمہ کے بعد سب یسُّوع پاک میں ایک ہو چکے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
''اور تُم سب نے مسیح میں اصطباغ پا کر مسیح کو پہن لیا''۔
غلاطیوں۔۔۔۔۔۔27:3اور آگے بھی
بُنیادی دِینی اُصُول و قانُون کی بات جونئے تعیُّن کے لیے پُرانی تعریف کو تبدیل کرتی ہے، اور جو مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح سے وارد ہونے والی نئی تخلیقی ترتیب سامنے لاتی ہے تا کہ فرق کو ہَوَا دینے والی تمام پہلے کی رکاوٹیں توڑ دی جائیں، حد بندیاں ختم کر دی جائیں۔
یہ ایک دِینی حقیقت تھی مگر اس کی ترجمانی کو عملی جامہ پہنانے کی اور تو کِسی کی کیا مجال خُود رسول پولوس اقدس بھی عاجز عاجز نظر آنے لگے۔ بڑی ٹیڑھی کھیر تھی۔۔۔۔۔۔
''مَیں تمھاری تعریف کرتا ہُوں کہ ہر بات میں مجھے یاد رکھتے ہو، اور جِس طرح مَیں نے تمھیں روایتیں پہنچا دیں تُم اِسی طرح ان کو برقرار رکھتے ہو۔
پس مَیں تمھیں آگاہ کرنا چاہتا ہُوں کہ ہر عورت کا سِر مرد، ہر مرد کا سِر مسیح او رمسیح کا سِر خُدا ہے۔ جو مرد سر ڈھانپے ہُوئے دُعا یا نبُوّت کرتا ہے وُہ اپنے سر کو بے حُرمت کرتا ہے اور جو عورت بغیر سر ڈھانپے دُعا یا نبُوّت کرتی ہے وُہ اپنے سر کو بے حُرمت کرتی ہے۔ کیوں کہ یہ اس کے سر منڈانے کے برابر ہے، کیوں کہ اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے لیکن اگر عورت بال کٹانے یا سر مُنڈانے سے بے حُرمت ہوتی ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔
مرد کو اپنا سر ڈھانپنا نہ چاہیے کیوں کہ وُہ خُدا کی صُورت اور اُس کا جلال ہے۔ مگر عورت مرد کا جلال ہے ، اِس لیے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے، اور مرد عورت کے لیے نہیں بل کہ عورت مرد کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ اِس واسطے چاہیے کہ عورت فرشتوں کے سبب سے اپنے سر پر محکُوم ہونے کا نشان رکھّے تو بھی خُداوند میں نہ مرد عورت کے بغیر ہے نہ عورت مرد کے بغیر، کیوں کہ جیسے عورت مرد سے ہے ایسا ہی مرد بھی عورت کے وسیلے سے ہے مگر سب کُچھ خُدا سے ہے۔
تم آپ ہی انصاف کرو، کیا مناسب ہے کہ عورت بغیر سر ڈھانپے دُعا کرے؟ کیا فطرت آپ تُم کو نہیں سکھاتی ہے کہ اگر مرد بال لمبے رکھّے تو اُس کی بے حُرمتی ہے لیکن اگر عورت کے بال لمبے ہوں تو اُس کی عِزّت ہے کیوں کہ بال اُسے پردہ کے واسطے دیے گئے ہیں لیکن اگر کوئی تکراری نکلے تو معلُوم رہے نہ ہمارا کوئی ایسا دستُور ہے اور نہ خُدا کی کلیسیاؤں کا''۔
1۔قرنتیوں۔۔۔۔۔۔2:11تا 16
یہ دِینی فکر درج بالا حوالے کے تابع ہے جِس کے تحت پولوس رسول نے بھی کمیونٹی کے روز و شب میں خواتین کو بھرپور شرکت کی دعوتِ عام دی اور اس نے سوسائٹی میں لیڈنگ رول ادا کرنے کی بھی خواتین کے حق میں حمایت کی۔۔۔۔۔۔
''مَیں تُم سے ہماری بہن فِیبہ کی سفارش کرتا ہُوں، وُہ کنکریہ میں کلیسیا کی شماسہ ہے کہ تُم اُس کو خُداوند کے واسطے یُوں قُبُول کرو جیسا مُقدّسوں کو واجب ہے۔
اور جِس کِسی کام میں وُہ تمھاری محتاج ہو تُم اُس کی مدد کرو۔ کیوں کہ وُہ بہتیروں کی بل کہ میری بھی مددگار رہی ہے۔
پر سِقہ اور اکیلا سے میرا سلام کہو جو یسُّوع مسیحمیں میرے ہم خدمت ہیں۔ انھوں نے میری جان کے بدلے اپنی گردن دھر دی تھی اور نہ صِرف مَیں بل کہ غیر قوموں کی سب کلیسیائیں اُن کی شُکر گُزار ہیں۔
اور اس کلیسیا سے بھی سلام کہو جو اُن کے گھر میں ہے، میرے پیارے اُِینیتُس سے سلام کہو جو مسیح میں آسیہ کا پہلا پھل ہے''۔
رومیوں کے نام۔۔۔۔۔۔1:16تا 5
تبلیغ و رسالت کی خدمات بھی خواتین انجام دیں۔
''انَدرُونِیکُس اور یونیاس سے سلام کہو، وُہ میرے رشتہ دار ہیں اور قید خانے میں میرے شریک تھے اور رسولوں کے نزدِیک نام ور ہیں او رمجھ سے پہلے مسیح میں شامل ہُوئے''۔
رُومیوں۔۔۔۔۔۔7:16
اور
''ترُوفَینہ اور تُروفوسہ سے سلام کہو جو خُداوند میں محنت کرتی ہیں۔ پیاری فرسِیس سے سلام کہو جِس نے خُداوند کے لیے بہُت محنت کی ہے''۔
رومیوں۔۔۔۔۔۔12:16
پولوس رسول کا دورگُذرا تو ایسے رُجحانات نے زور پکڑا جِن کے تحت خواتین کو چَوکی چُولھے کے فرائض کی بجا آوری پر لگا دیا گیا(موازنہ کیجیے1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔34:14اور آگے کا1۔تیموتاؤس۔۔۔۔۔۔5:2تا 11سے اور 1۔ پطرس۔۔۔۔۔۔1:3تا6، طیطُس۔۔۔۔۔۔5:2، 1۔ تیموتاؤس۔۔۔۔۔۔:11:5تا 14سے بھی)۔
یہ ہی فرمان کے خاوندوں کو بیویوں سے اُلفت ہونی چاہیے بل کہ کہا گیا ہے کہ ضرُوری ہے کہ وُہ اپنی شریکِ حیات سے محبّت کرتے ہوں۔ یہ امر گریکو رومن (یونانی و رومی) اخلاقیات کا بھی حصّہ تھا۔ افسیوں کے نام مراسلہ میں یہاں تک کہا گیا:
''اے شوہرو! اپنی بیویوں کو پیار کرو جیسا مسیح نے بھی کلیسیا کو پیار کِیا اور اس کی خاطر اپنے آپ کو حوالے کر دیا تا کہ اُس کو کلمے کے ساتھ پانی کے غُسل سے صاف کر کے مُقدّس کرے۔
اور خُود اپنے واسطے ایک جلالی کلیسیا پیدا کرے جِس میں داغ یا شکن یا اِس قسم کی کوئی چیز نہ ہو بل کہ پاک اور بے عیب ہو۔
چاہیے کہ اسی طرح شوہر بھی اپنی بیویوں کو اپنے بدن کے مانند پیا رکریں۔ جو اپنی بیوی کو پیار کرتا ہے وُہ اپنے آپ کو پیار کرتا ہے، کیوں کہ کِسی نے اپنے جسم سے کبھی دُشمنی نہیں کی، بل کہ وُہ اسے پالتا پوستا ہے جیسے کہ مسیح بھی کلیسیا کو، کیوں کہ ہم اُس کے بدن کے اعضا ہیں۔
اس لیے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑ ے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا اور وُہ دونوں ایک تن ہو ں گے۔
یہ ایک بڑا بھید ہے۔ یعنی مسیح اور کلیسیا کی نسبت''۔
افسیوں۔۔۔۔۔۔25:5تا32
یہی مثال تمام مسیحی خانوادوں پر صادق آتی ہے۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی گہری اور پایدار محبّت کی مثال کافی ہے خاوندوں کے رویّوں کی سمت دُرُست کرنے کے لیے تا کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں، ان سے مہر و محبّت کا سُلُوک کریں اور دونوں ایک دُوسرے کے وفادار رہیں۔ محبّت بیوی کو اُس کا حق سمجھ کے دی جائے، اپنی سردارانہ طاقت اُس کی اطاعت پر نہ آزمائی جائے، ایسا تو بس مِٹ چلے نظاموں میں ہوتا ہے کہ خاندانوں کا کوئی مُعتبر بزُرگ قبائلی رواجوں کے مُطابِق سب کا پردھان بنا لیا جاتا رہا ہے۔ اب زمانے کے طور بدل چکے ہیں۔ اِسی لیے مُقدّس کلامِ خُدا میں طے کر دیا گیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
''اور مسیح کے خوف سے ایک دُوسرے کے تابع رہو۔
بیویاں اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہیں جیسے خُداوند کی''۔
افسیوں۔۔۔۔۔۔21:5(اور 22)
پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی تعظیم، تکریم و تقدیس کرنے والے مسیحیوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یسُّوع پاک نے کہ ایک دُوسرے کے تابع تو رہو، وُہ تو ٹھیک ہے، وُہ تابع رہنا ہوگا کِس طرح کا، یہ بھی واضح کر دیا۔
جہاں تک تو تعلُّق ہے کلیسیائی تعلیمات کا یہ قدرے پیچیدہ سا مسئلہ ہے جو عصری کیتھولک کلیسیا اور آرتھوڈاکس کلیسیا میں نقطہء سُوالیہ بن کے لٹک گیا ہے۔ زندہ و متحرّک مذہب میں ایسے سُوالات اُٹھتے رہتے ہیں او ران پر غور و خوض، بحث مباحثہ بھی جاری رہتا ہے مگر یہاں مَیں عرض کر دُوں کہ یہ ایک کٹھن سا سُوال ہے جو اِکّیسویں صدی میں تو بہُت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ وُہ سُوال جو در اصل ایک اُلجھن ہے بل کہ مسئلے کی تکونی سی پہاڑی ہے جسے سَر کرنا ضرُوری تو ہے مگر ہے خاصا مُشکل کام کہ پُوچھا جاتا ہے آیا خواتین کو اِتنی اجازت، اِتنی چھُوٹ، اِتنی آزادی دے دی جانا چاہیے کہ وُہ کلیسیائی، چوپانی اور پاسبانی خدمات سنبھال سکنے کی مجاز قرار دے دی جائیں۔ انسانی او رمسیحی اعتبار سے تو جو عزّت، احترام اور وقار خواتین کو حاصل ہے، اس لحاظ سے ُوہ مردوں کے برابر ہیں۔ پریسٹ یا پاسٹر بننے میں بھلا کیا مضایقہ ! انھیں برابر کا مقام مِلنا چاہیے عامۃ المومنین کی تمام خِدمات کے ضمن میں۔ اور بظاہر عبادات، مناجات میں رہنمائی کرنے کا درجہ بھی اپنے آپ کو اِس لائق بنا کے حاصل کر لیں تو کیا حرج ہے۔ میرٹ پر کاہنہ/ قسیس کے درجہ تک رسائی ان کے لیے مُمکن بنانا عوام النّاس میں عصری تقاضوں کے مُطابِق تصوُّر کِیا جانے لگا ہے۔ تاہم کلیسیاؤں کا فیصلہ مُقدَّم، ان کا فرمان سب مصلحتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اور یہ بھی کہ 1976ع کے سال رومن کانگریگیشن آف دی ڈاکٹرین آف فیتھ نے پھر اپنا فیصلہ دے دیا تھا کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی مثال سامنے رکھتے ہُوئے اور مُقدّس کلسیا کی تمام روایات کے تطابق میں کیتھولک مسیحی کلیسیا اسے مُمکن نہیں گردانتی کہ خواتین کو کہانت کی خِدماتِ خُداوندی کِسی بھی سطح پر تفویض کی جا سکیں۔ (نہ کل ایسا ہُوا، نہ آج ایسا ہے، نہ کل ایسا ہونے کا امکان ہوگا)۔ بہ ہرحال یہ عقیدہ کے لحاظ سے کوئی حرفِ آخِر بھی نہیں اور نہ ہی یہ مُقدّس بزُرگانِ کلیسیا کا کوئی مُتّفقّہ فیصلہ ہے۔ نظرِ ثانی کی گُنجایش ہے۔ کانگریگیشن کے فیصلے کو ری وِزٹ کِیا جا سکتا ہے اور یہ الٰہیات کے عام طالبِ علم کے طور پر میرا ذاتی عندیہ ہے۔ بہ ہر حال کلامِ مُقدّس کے دلائل و شواہد و حوالہ جات سب سے زیادہ اہم ہیں۔ وُہی زیادہ مُعتبر ہیں، بل کہ بس وُہی مُعتبر ہیں نسبتاً ان دلائل کے جو مرد و زن کے درمیان سیکولر مساوات کے لیے درخواست گزار آئے روز دباو ڈالنے کی خاطر پینترے بدل بدل کر پیش کرتے رہتے ہیں۔ حتمی بات یہ کہ جہاں تک کاہنانہ منصب دیے جانے کا تعلُّق ہے راسخ العقیدہ کلیسیا سے ہٹ کر کیتھولک چرچ ایک انچ بھی اِدھر اُدھر سرکنا ہرگز پسند نہیں کرے گی۔
البتہ یہ ہم حُضُور کو بتائے دیتے ہیں کہ انگلیکن کلیسیاؤں اور بہُت سی پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں کے تحت خواتین نہ صِرف یہ کہ پاسٹر بل کہ بشپ صاحبہ بھی بن سکتی ہیں۔